کا فیصلہ کرکے خالد پر مہر واجب کردی ،پھر قاضی کے فیصلہ کے بعد شہود ِیمین اور شہودِشرط دونوں نے گواہی سے رجوع کرلیا کہ ہم نے تو جھوٹی گواہی دی تھی ،تو شہود ِیمین بمنزلہ علت کے ہیں ،کیونکہ یمین ہی وقوعِ طلاق اور لزومِ مہر کی علت ہے ،لہٰذا ضمان شہودِ یمین پر ہوگا ۔
وکذلک العلۃ والسبب :-اسی طرح جب علت اور سبب جمع ہوجائیں اور علت صالح للحکم ہوتو سبب ساقط ہوجائے گا جیسے شہودِ تخییر اور شہودِ اختیار مثلاً دوگواہوں نے گواہی دی کہ خالدنے اپنی بیوی سے یوں کہا ہے ’’اختادی نفسک‘‘ ، یہ شہودِ تخییر ہیں ،یہ طلاق کا سبب ہے، پھر دوسرے دو گواہوں نے گواہی دی کہ خالد کی بیوی نے اسی مجلس میں اس کے جواب میں کہا ہے ’’اخترت نفسی‘‘یہ شہودِ اختیار ہیں ، یہ طلاق کی علت ہے، تو قاضی نے طلاق کا فیصلہ کرکے مہر واجب کردی ، پھر شہود ِتخییر اور شہودِ اختیار دونوں نے گواہی سے رجوع کرلیا ،تو ضمان علت پر یعنی شہود اختیار پر لازم ہوگا، کیونکہ علت ضمان کے حکم کی صلاحیت رکھتی ہے، لہٰذا سبب متروک ہوگا یعنی شہود تخییر پر ضمان نہ آئے گا۔
یہی صورت حال عتاق میں ہے، جیسے دو گواہوں نے کہا کہ زید نے اپنے غلام کو اختیار دیا ہے ،اوریوں کہا ہے انت حران شئت، یہ شہود ِتخییر ہیں، پھر دوسرے دو گواہوں نے کہا کہ غلام نے اسی مجلس میں کہا ہے’’قدشئت‘‘ قاضی نے غلام کی آزادی کا فیصلہ کردیا پھر گواہوں نے رجوع کرلیا، تو غلام کی قیمت کا ضمان علت یعنی شہود اختیار پر لازم ہوگا۔
وعلی ھذا قلنا:-اسی اصول پر کہ علت جب صالح للحکم ہوتو شرط اور سبب ساقط ہو جاتے ہیں اور حکم علت کی طرف منسوب ہوتا ہے، ہم نے کہاکہ اگر کنویں میں گرکر مرنے والے کے ولی اور حافر کے درمیان اختلاف ہوگیا حافر کہتا ہے کہ جان بوجھ کرگر کرمرا ہے، اور ولی کہتا ہے بلاقصد گرا ہے، تو حافر کا قول معتبر ہوگا استحسانًا، اس لئے کہ حافر اصل سے استدلال کررہا ہے، اور اصل یہی ہے کہ علت کی طرف حکم منسوب ہو، اور حافر شرط کے علت کا خلیفہ ہونے کا انکار کررہا ہے، اور ولی خلاف اصل سے تمسک کررہا ہے، کیونکہ وہ شرط کو علت کا خلیفہ قرار دے رہا ہے یعنی اس کے کنواں کھودنے کو جو شرط ہے علت کے قائم مقام کررہا ہے، جو خلاف ِاصل ہے، کیونکہ اصل تو یہی ہے کہ حکم علت کی طرف منسوب ہو، لہٰذا استحسانًا (خلاف قیاس) حافر کا قول معتبر ہوگا، مگر قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ولی کا قول معتبر ہو،کیونکہ اس کا قول ظاہر حال کے موافق ہے، کیونکہ عام طور پر جان بوجھ کر کوئی اپنے آپ کو نہیں گراتا ہے، لہٰذا یہ بغیر قصد گرا ہے، اور بغیر قصد گرنا یہ ایسی علت ہے جو ضمان کے حکم کی صلاحیت نہیں رکھتی، لہٰذا ضمان کا حکم شرط پر ہوگا، شرط کو علت کے قائم مقام بناکر، اس کے برخلاف اگر رخم لگانے والے اور مجروح کے ولی کے درمیان اختلاف ہوجائے ،