کے ورثہ اس کے وارث ہوں گے ، اگر نفع نہ ہوتا توبچہ کے حق میں میرا ث مشروع نہ ہوتی،معلوم ہواکہ میراث میں وصیت سے زیادہ ثواب ہے اس لیے کہ اس میں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے، لہٰذا میراث سے وصیت کی طرف منتقل ہونا یعنی ورثہ کو محروم کرکے اجانب کو وصیت کرنا یہ افضل کو ترک کرنا ہے ،اور ترک افضل میں ضرر ہے لہٰذا بچہ کی وصیت باطل ہوگی۔
الاانہ شرع فی حق البالغ:-ایک سوال کا جواب ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ وصیت کرنا ضرر کی وجہ سے بچہ کے لئے جائز نہیںہے، تو پھر بالغ کے لئے بھی وصیت درست نہ ہونی چاہیے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بالغ کی طلاق ،عتاق اور ہبہ دینااور قرض دینا درست ہے، اسی طرح بالغ کی وصیت بھی درست ہے ، اور یہ چیزیں بچہ کے لئے مشروع نہیں ہیں،یعنی بچہ ان کا مالک نہیں ہے ،نہ خود نہ ولی کی اجازت سے،اور نہ ولی یاقاضی بچہ پر ان امور کا مالک ہوگا ،یعنی ولی یاقاضی بچہ کی طرف سے طلاق دے،یاغلام آزاد کرے یامال ہبہ کرے تو جائز نہ ہوگا __البتہ قاضی اگر بچہ کا مال کسی کو قرض دے تو جائز ہے،کیونکہ اس میں بچہ کا فائدہ ہے کہ اس کا مال ضائع ہونے سے محفوظ رہے گا،اور قاضی ولایت کی وجہ سے قرض کو وصول کرنے کی طاقت رکھتا ہے ورنہ اگر یہ مال کسی کے پاس امانت ہوتو ہلاکت سے ضمان نہیں آئے گا جس میںبچہ کا ضررہے ۔
واماالردۃ فلاتحتمل:-ایک سوال کا جواب ہے،جس کی تقریر یہ ہے کہ جب بچہ سے وہ تمام افعال غیر معتبر ہیں جن میںاس کا ضرر ہے تو پھر اس کی ردت دنیوی اور اخروی احکام میں کیوں معتبر ہے ،جیسے اس کی بیوی اس سے بائنہ ہوجاتی ہے ،اس کے مسلمان رشتہ داراس کے وارث نہیں ہوتے ،یہ بچہ کے لئے ضرر ہی ضرر ہیں،جیسے کہ اس کے قائل ہیںطرفین ،بلکہ ردت کا دینوی احکام میں اعتبار نہ ہوناچاہیے جیسے کہ امام ابویوسف اور امام شافعی اس کے قائل ہیں ،البتہ احکامِ آخرت تو سب کے نزدیک نافذہوں گے،__اس کا جواب یہ ہے کہ احکامِ آخرت میں ردت کا نافذ ہونا اس لئے ہے کہ کفر وشرک کے ساتھ جنت کا داخلہ اور بغیر توبہ کے ارتدادکی معافی خلافِ عقل بھی ہے اور خلاف نص بھی ہے،ان اللہ لایغفران شرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء۔
اورردت سے احکام دنیا کا ثبوت جیسے بیوی کا بائنہ ہونا،حرمانِ میراث وغیرہ تو ان میں اگر چہ بچہ کا ضرر ہے ،لیکن یہ احکام اس پر قصداً لازم نہیں کئے گئے بلکہ صحت ِارتداد کے تابع ہوکر ضمناً لازم ہوئے ہیں، یعنی جب بچہ کا ارتداد صحیح ہے اور بغیر توبہ کے اس کی معافی نہیں ہے تو ارتداد کے لوازم میں سے جو احکام ہیں وہ خودبخود لازم ہوجائینگے جیسے بچہ کے ماںباپ مرتد ہوکر دار الحرب میں چلے جائیں تو ماں باپ کے تابع ہوکر ضمناًبچہ پر ارتداد کے احکام جاری ہوںگے ایسے ہی یہاں بھی احکام دنیا لازم ہوں گے۔