حق متعلق ہوگا، جیسے ماقبل میں آپ نے پڑھا۔
ففارق الخلف الاصل:-ایک اعتراض کو دفع کررہے ہیںجس کا حاصل یہ ہے کہ جب قصاص ابتداء ً ورثہ کے لئے ثابت ہوتا ہے تو دیت جو قصاص کا بدل اور خلیفہ ہے وہ بھی ورثہ کے لئے ہونی چاہیے ، کیونکہ اصل اور خلیفہ کا حکم ایک ہوتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اصل اور خلیفہ کی حالت مختلف ہے، اس طرح کہ اصل یعنی قصاص میں مقتول کی حاجت پوری کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اور دیت میں یہ صلاحیت ہے تو جب دونوں کی حالت مختلف ہیں تو خلیفہ اصل سے جدا ہوجائے گا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خلیفہ حکم میں اصل سے جدا نہیں ہوتاہے، مگر جب اصل اور خلیفہ کی حالت مختلف ہوں تو خلیفہ اصل سے جدا ہوسکتا ہے، لہٰذا یہاں خلیفہ یعنی دیت کا حکم اصل یعنی قصاص سے مختلف ہوگا کہ دیت ابتداء ً مقتول کے لئے ہوگی، اور جب اصل اور خلیفہ کی حالت مختلف ہوتو دونوں کا حکم بھی مختلف ہوتا ہے ، اس کے نظائر موجود ہیں، جیسے وضو اصل ہے، تیمم خلیفہ ہے، یہاں خلیفہ اصل سے جدا ہے، اس طرح کے خلیفہ یعنی تیمم میں نیت فرض ہے، اور اصل یعنی وضو میں نیت فرض نہیں ہے، خلیفہ اصل سے جدا اس لئے ہوا کہ دونوں کی حالت مختلف ہیں، اس طرح کہ پانی بذاتِ خود مُطَہِرّ ہے، اس میں نیت کی ضرورت نہیں ، اور مٹی ملوث ہے ، خلاف قیاس اس سے طہارت ہوتی ہے، لہٰذا نیت ضروری ہوگی۔
واما احکام الاخرۃ:-احکام دنیا کی چار قسمیں بیان کرنے کے بعد احکام آخرت میں میت کا حکم بیان کررہے ہیں، فرماتے ہیں کہ میت احکامِ آخرت میں زندوں کے حکم میں ہوتی ہے، اس لئے کہ حکمِ آخرت میں میت کے لئے قبر ایسی ہے جیسے مادۂ منی کے لئے رحمِ مادر اور بچہ کے لئے گہوارہ ، پس جیسے رحم ِمادر اور گہوارہ دنیا کی پہلی منزل ہے، ایسے ہی قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، دنیا کے حق میں میت کو قبر میں اس لئے رکھا گیا تاکہ اس پر احکام ِآخرت جاری ہوں، پس اگر میت اہل ِسعادت میں سے ہے ،تو قبر اس کے لئے جنت کا باغیچہ ہے، اور اگر اہلِ شقاوت میں سے ہے ،تو قبر جہنم کا گڑھا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے قبر کو ہمارے لئے جنت کا باغیچہ بنادے،آمین۔
حفظ الرحمن پالن پوری عفی اللہ وعن والدیہ
فَصْلٌ فِی الْعَوَارِضِ الْمُکْتَسَبَۃِ اَمَّا الْجَھْلُ فَاَنْوَاعُ اَرْبَعَۃٌ جَھْلٌ بَاطِلٌ بِلَاشُبْھَۃٍ وَھُوَ الْکُفْرُ وَاِنَّہٗ لَایَصْلَحُ عُذْرًا فِیْ الْاٰخِرَۃِ اَصْلًا لِاَنَّہٗ مُکَابَرَۃٌ وَجُحُوْدٌ بَعْدَ