تنبیہ: یہ بات ذہن میں رہے کہ مذکورہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب عام میں تخصیص ابتداء ً ہو ، ورنہ عام میں کسی مُخصِّص کے ذریعہ تخصیص ہوچکی ہو تو اس عام مخصوص منہ البعض میں تخصیص مفصولاً ہمارے نزدیک بھی جائز ہوگی ، کیوں عام ایک مرتبہ تخصیص سے ظنی ہوگیا تو ثانیاً جو تخصیص ہوگی وہ ظنی میں ہوگی ، تو یہ تخصیص بیان ِتغیر نہ ہوگی بلکہ بیانِ تقریر ہوگی۔
وعلی ھذا قال علماء نا:-ہمارے نزدیک چونکہ تخصیص میں وصل ضروری ہے، اس پر یہ مسئلہ متفرع ہے، انگوٹھی عام کے درجہ میں ہے جو حلقہ اور نگینہ دونوں کو شامل ہے، لہٰذا اگر کسی نے ایک آدمی کے لئے انگوٹھی کی وصیت کی اور متصلاً نگینہ کی وصیت دوسرے کے لئے کردی تو دوسری وصیت یعنی نگینہ کی وصیت پہلی وصیت یعنی انگوٹھی کی وصیت کے لئے تخصیص ہوگی، لہٰذا پہلے شخص کے لئے حلقہ ہوگا اور دوسرے کے لئے نگینہ ہوگا، لیکن اگر دوسری وصیت پہلی وصیت کے ساتھ موصولاً نہیں کی بلکہ مفصولاً کی تو دوسری وصیت پہلی وصیت کے لئے تخصیص نہ ہوگی بلکہ پہلی وصیت کی وجہ سے حلقہ اور نگینہ دونوں پہلے شخص کے لئے ہوگئے پھر دوسری وصیت کی وجہ سے نگینہ دوسرے آدمی کے لئے بھی ہوا تو دوسری وصیت نگینہ کے بارے میں پہلی وصیت کے معارض ہوگئی، اس تعارض کی وجہ سے نگینہ دونوں آدمیوں کے درمیان مشترک ہوگا۔
وَاخْتَلَفُوْا فِیْ کَیْفِیَّۃِ عَمَلِ الْاِسْتِثْنَاءِ اَیْضًا قَالَ اَصْحَابُنَا اَلْاِسْتِثْنَاءُ یَمْنَعُ التَّکَلُّمَ بِحُکْمِہٖ بِقَدْرِ الْمُسْتَثْنٰی فَیَکُوْنُ تُکَلُّمًا بِالْبَاقِیْ بَعْدَہٗ وَقَالَ الشَّافِعِیُّؒ اَلْاِسْتِثْنَاءُ یَمْنَعُ الْحُکْمَ بِطَرِیْقِ الْمُعَارَضَۃِ بِمَنْزِلَۃِ دَلِیْلِ الْخُصُوْصِ کَمَا اِخْتَلَفُوْا فِی التَّعْلِیْقِ بِالشَّرْطِ عَلٰی مَاسَبَقَ فَصَارَ عِنْدَنَا تَقْرِیْرُ قَوْلِہٖ لِفُلَانٍ عَلَیَّ اَلْفُ دِرْھَمٍ اِلَّا مِائَۃٌ لَہٗ عَلَیَّ تِسْعُمِائَۃٍ وَعِنْدَہٗ اِلَّا مِائۃٌ فَاِنَّھَا لَیْسَتْ عَلَیَّ۔
ترجمہ:-اور اختلاف کیا ہے (احناف وشوافع نے) استثناء کے عمل کی کیفیت کے بارے میں ،پس ہمارے اصحاب نے کہا کہ استثناء مستثنی کی مقدار میں اس کے حکم کے ساتھ تکلم کو روکتا ہے ،تو ہوگا تکلم اس مقدار کا جو باقی ہے، اور امام شافعیؒ نے کہا کہ استثنا روکتا ہے حکم کو معارضہ کے طریقہ پر بمنزلِ دلیل ِ خصوص کے، جیسا کہ اختلاف کیا ہے (احناف وشوافع نے) تعلیق بالشرط میں اس تفصیل کے مطابق جو گذرچکی، تو ہمارے نزدیک قائل کے قول لفلان علی الف درھم الامائۃ کی تقریر ہوگی لہ علی تسعمائۃ، اور امام شافعیؒ کے نزدیک الامائۃ فانھا لیست علی ہوگی۔