ساتھ متوجہ قرار دیا ہے، اور انہوں نے کہا کہ جس کو سمجھ بوجھ حاصل ہوگئی چھوٹا ہویابڑا اس کے لئے طلبِ ایمان کی واقفیت سے اور ترکِ ایمان سے کوئی عذر نہیں ہے ،اگر چہ دعوت نہ پہنچی ہو، اور اشعریہ نے کہا کہ بغیر سمع (شریعت)کے عقل کا کوئی اعتبار نہیں ہے ،اور جس نے شرک کا اعتقاد کیا اور اس کو دعوت نہیں پہنچی تو وہ معذور ہے ۔
اور بابِ عقل میں قول ِصحیح یہ ہے کہ عقل معتبر ہے اہلیت کو ثابت کرنے کے لئے ،اور عقل آدمی کے بدن میں ایک نور ہے جس سے وہ راستہ روشن ہوتا ہے جس کی ابتدااس جگہ سے ہوتی ہے جہاں حواس کا ادراک ختم ہوجاتا ہے ،پس قلب کے لئے مطلوب ظاہر ہوجاتا ہے ،پھر قلب مطلوب کا ادراک کرلیتا ہے تاملِ عقل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تو فیق سے نہ کہ عقل کے واجب کرنے سے،اور عقل عالمِ ظاہر میں سورج کے مانند ہے ،جب وہ طلوع ہوجائے اور اس کی شعاع ظاہرہوجائے اور راستہ روشن ہوجائے تو آنکھ سورج کے نور کی وجہ سے ادراک کرنے والی ہوجاتی ہے ،اور عقل کافی نہیں ہے ۔
------------------------------
تشریح :-مصنف ؒاحکام ِمشروعہ اور متعلقاتِ احکام شروعہ کو بیان کرنے کے بعد خطاباتِ شرعیہ کا جو مدار ہے یعنی عقل اس کی بحث شروع کررہے ہیں،چنانچہ فرماتے ہیں کہ عقل کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے کہ آیا عقل علتِ موجبہ ہے یانہیں ہے؟ اس سلسلہ میں تین مذہب ہیں،ایک میں افراط ہے،ایک مین تفریط ہے اور ایک میں اعتدال ہے۔
(۱)معتزلہ کہتے ہیں کہ عقل جن چیزوں کو اچھا سمجھے جیسے صانع کی معرفت ،اس کا شکر ان چیزوں کے لئے عقل قطعی اور حتمی طور پر علتِ موجبہ ہے،اور جن چیزوں کو عقل قبیح سمجھے جیسے صا نع سے ناواقف رہنا ان چیزوں کے لئے عقل علتِ مُحَرِّمَہ ہے ،بلکہ ان کے نزدیک عقل کا درجہ شرعی علتوں سے بھی بڑھ کرہے ،کیونکہ شرعی علتیں موجب ِ احکام نہیں ہیں،بلکہ علامتیںہیں،اور عقلی علتیں بذاتِ خود مُوْجِب ہیں،اسی لئے معتزلہ ان چیزوں کا انکار کردیتے ہیں جن کا عقل سے ادراک نہ ہوسکے جیسے رؤیتِ باری تعالیٰ ، عذاب ِقبر،میزان ،احوالِ قبر وغیرہ ،یاجن چیزوں کو عقل براسمجھے ،لہٰذا معاصی کو اللہ کی مخلوق نہیں مانتے کیونکہ معاصی کی نسبت اللہ کی طرف کرنے کو عقل قبیح سمجھتی ہے ،غرض عقل جن چیزوں کو برا سمجھے یا جن کا ادراک نہ کر سکے ،چاہے وہ چیزیں دلائل ِشرعیہ سے ثابت ہوں،معتزلہ ان کا انکار کرتے ہیں،وہ تمام خطابات کو عقل کی طرف متوجہ کرتے ہیں،یعنی وہ عقل ہی کو معیار قرار دیتے ہیں،اور شریعت کو عقل کے تابع مانتے ہیں،اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص عقل رکھتا ہے تو چاہے وہ چھوٹا بچہ ہویا بالغ ہو،عقل کے باوجود وہ طلب ِایمان سے رکار ہے اور کفر پر رہے ،تو چاہے اس کو دعوت نہ پہنچی ہو،اس کو معذور نہیں قرار دیا جائے گا، کیونکہ اس کے پاس عقل موجود ہے،چھوٹا بچہ بھی ایمان کا مکلف ہے،اگر عقل رکھتا ہے تو ،غرض معتزلہ عقل ہی کو سب کچھ قرار دیتے