حدیث موضوع ہے یا منسوخ ہے، یا راوی لاپرواہ ہے یا راوی پر غفلت ونسیان کا غلبہ ہے یا وہ روایت کو حقیر سمجھتا ہے، تو ان تمام صورتوں میں حدیث ساقط الاعتبار ہوگی، کیونکہ راوی میں روایت کی شرطیں مفقود ہیں، البتہ اگر راوی کی مخالفت ایسی حدیث میں ہے جس میں چند معانی کا احتمال ہے اور راوی نے ایک معنی اختیار کرلیا، تو اس مخالفت سے حدیث متروک نہ ہوگی، اسی طرح اگر راوی کی مخالفت روایت کرنے سے پہلے ہو یا مخالفت کی تاریخ کا علم نہ ہوتو بھی حدیث متروک نہ ہوگی، کیونکہ روایت سے پہلے مخالفت ہے تو یوں کہیں گے کہ راوی نے روایت کے بعد اپنا مذہب بدل دیا، اور مخالفت کی تاریخ معلوم نہ ہونے کی صورت میں یوں کہیں گے کہ حدیث اصل میں یقین کے ساتھ حجت ہے، اور تاریخ معلوم نہ ہونے سے اس کے ساقط الاعتبار ہونے میں شک ہوگیا ،اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا، لہٰذا حدیث حجت رہے گی۔
اسی طرح اگر راوی کے علاوہ ائمہ حدیث یعنی صحابہ میں سے کسی نے اس حدیث کی مخالفت کی ہو، اور حدیث ایسی ہو جس کے ان حضرات پر مخفی ہونے کا احتمال نہ ہو، تو بھی حدیث متروک ہوجائے گی ، جیسے راوی کی مخالفت سے متروک ہوتی ہے، اور اگر حدیث ایسی ہے جس کے مخفی ہونے کا احتمال ہے تو ان کی مخالفت سے حدیث متروک نہ ہوگی جیسے نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کی حدیث، بعض صحابہ نے اس کی مخالفت کی ہے، وہ اس کے قائل نہیں ہیں تو ان کی مخالفت کے باوجود حدیث متروک نہ ہوگی کیونکہ نماز میں قہقہہ ایک نادر چیز ہے، ممکن ہے مخالفت کرنے والے صحابہ پر یہ امر مخفی رہا ہو، پتہ نہ چلا ہو۔
بہرحال راوی کی مخالفت یا راوی کے علاوہ ائمہ صحابہ کی مخالفت سے بھی حدیث متروک ہوجائے گی اور اس حدیث کو منسوخ ہونے پر محمول کیا جائے گا جیسے حدیث ہے ’’البکر بالبکر جلدمأۃ وتغریب عام‘‘غیر محصن زانی اور زانیہ کی سزا سوکوڑے اور ایک سال جلد وطنی ہے، امام شافعی نے اسی حدیث سے استدلال کرکے جلاوطن کرنے کو حدِزنا کا جزء قرار دیا مگر احناف کہتے ہیں کہ ائمہ صحابہ نے اس حدیث کی مخالفت کی ہے ،حالانکہ حدیث تمام صحابہ پر عیاں تھی، معلوم ہوا کہ حدیث منسوخ ہے، اس پر عمل نہ ہوگا، اگر حدیث ثابت ہوتی تو صحابہ سے یہ بعید ہے کہ وہ حدیث کی مخالفت کریں۔
واختلف فیما اذا نکرۃ:-اگر کسی راوی نے کوئی حدیث روایت کی اور مروی عنہ یعنی اس کے شیخ نے انکار کردیا، یہ انکار دو طرح کا ہے،(۱) ایک تو یہ کہ انکارجاحد ہو جیسے شیخ کہے میں نے تیرے سامنے یہ حدیث کبھی بیان نہیں کی، یا تو نے مجھ پر جھوٹ بولا، تو اس صورت میں تو بالاتفاق حدیث ترک کردی جائے گی کیونکہ راوی اور شیخ دونوں میں سے ایک لاعلی التعیین جھوٹا ہے، اور اس کی وجہ سے حدیث میں عیب پیدا ہوگیا لیکن اس حدیث کی وجہ