ہیں،ان کے مذہب میں افراط ہے۔
(۲)اوراشاعرہ ان کے مقابلہ میں عقل کو بالکل بیکار اور ہدر قرار دیتے ہیں،چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ بغیر ورودِ شرع کے عقل کا کوئی اعتبار نہیں ہے ،لہٰذا اگر کوئی آدمی کفر وشرک کا عقیدہ رکھے،اور اس کو اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہوتو باوجود عقل کے وہ معذور قرار دیاجائے گا ، اشاعرہ کے مذہب میں تفریط ہے کہ وہ عقل کو بالکل ہی ہدر قرار دیتے ہیں۔
(۳) افراط وتفریط کے درمیان محققین کا مذہب یہ ہے کہ عقل بذاتِ خود نہ احکام کی مُوْجِب ہے اور نہ مُحَرِّم ،بلکہ احکام کی تعیین شریعت کا کام ہے،لہٰذا ان میں ایسے احکام بھی ہوں گے جو عقل کی پرواز سے بالاترہوں گے مگر ان کو ماننا پڑے گا کیونکہ شریعت سے ثابت ہیں،اسی لئے فقہاء ایسے احکام کو امر تعبدی کہتے ہیں،اور عقل بالکل بیکار بھی نہیں ہے کیونکہ بغیر عقل کے احکام ِشرع کی تکلیف کا وقوع نہیں ہوتا ہے،بلکہ توجہ ِ خطاب کا مبنی عقل ہے اس کے بغیر بندہ احکامِ شرع کا اہل نہیں بنتا ،یہی مسلک ہے ماتر یدیہ محققین احناف کا۔
وھونور فی بدن الارمی: -عقل ہے کیا چیز؟ مصنفؒ فرماتے ہیں کہ عقل انسانی بدن میں اللہ کا عنایت کردہ ایک نور ہے جس سے قلب کو وہ جلا حاصل ہوتا ہے جس میں انسان بتوفیق ایزیدی مطلوب کو حاصل کرلیتا ہے ،عقل کا دائرہ کار بہت وسیع ہے،اس کے کام کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں حواس کے کا م کا اینڈہوتا ہے ۔
عالم ظاہر میں عقل کی مثال ایسی ہے جیسے سورج ،جب وہ طلوع ہوتا ہے تو عالم کو روشن کردیتا ہے اور اس کی چمک اور روشنی سے آنکھ مرئیات کو دیکھتی ہے،ورنہ اندھیرے میں یہی آنکھ بیکار ہوجاتی ہے، بہرحال تأملِ عقل کے بعد قلب کو مطلوب حاصل ہوجاتا ہے ،تبو قیق الہی نہ کہ بطریقِ تولید یعنی عقل اگر چہ ادراک کا آلہ اور اشیاء کے حسن وقبح کی معرفت کا ذریعہ ہے مگر عقل اس سلسلہ میں مستقل نہیںہے، بلکہ ورودِ شرع کی محتاج ہے،تنہا عقل کا فی نہیں ہے ۔
وَلِھٰذَاقُلْنَا اِنَّ الصَّبِیَّ غَیْرُ مَکَلَّفٍ بِالْاِیْمَانِ حَتّٰی اِذَا عَقَلَتِ الْمُرَاھِقَۃُ وَھِیَ تَحْتَ مُسْلِمٍ بَیْنَ اَبْوَیْنِ مُسْلَمِیْنِ وَلَمْ تَصِفِ الْاِسْلَامَ لَمْ تُجْعَلْ مُرْتَدَّۃً وَلَمْ تَیِنْ مِنْ زَوْجِھَا وَلَوْ بَلَغَتْ کَذٰلِکَ لَبَانَتْ مِنْ زَوْجِھَا وَکَذَانْقُوْلُ فِی الَّذِیْ لَمْ تَبْلُغْہُ الدَّعْوَۃُ اِنَّہٗ غَیْرُ مُکَلَّفٍ بِمُجَرَّدِ الْعَقْلِ وَاِنَّہٗ اِذَا لَمْ یِصَفْ اِیْمَانًا وَلَا کُفْرًا وَلَمْ یِعْتَقِدْ عَلٰی شَیْئٍ کَانَ مَعْذُوْرًا وَاِذَا اََعَانَہُ اللّٰہُ بِالتَّجْرِبَۃِ وَامْھَلَہُ لِدَرْکِ الْعَوَاقِبِ فَھُوَ لَمْ یَکُنْ مَعْذُوْرًا وَاِنْ لَمْ تَبْلُغْہُ الدَّعْوَۃُ عَلٰی نِحْوِمَا قَالَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ فِی السَّفِیْہِ اِذَا بَلَغَ خَمْسًا وَعِشْرِیْنِ سَنَۃً لَمْ یُمْنَعْ مَالُہٗ مِنْہُ لِاَنَّہٗ قَدْ اسْتَوْ فٰی