واجب ہوگی، اس کے برخلاف اگر ایک کا زخم دوسرے کے مقابلہ میں قوی اور مہلک ہے ،تو موت کی نسبت اسی کی طرف ہوگی جیسے ایک نے ہاتھ کاٹا ، اور دوسرے نے گردن ماری تو گردن مارنے والے ہی کو قاتل سمجھاجائے گا۔
والذی یقع بہ الترجیح:-مصنفؒ فرماتے ہیں کہ وہ امور جن سے ترجیح حاصل ہوتی ہے، وہ چار ہیں۔
(۱)قوت تاثیر، دومتعارض قیاسوں میں ایک کی تاثیر قو ی ہے، تو اس کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہوگی قو ت تاثیرکی وجہ سے،قوت تاثیر ایک وصف ہے جو قیاس کے ساتھ ہوتاہے ،کوئی مستقل امر نہیں ہے ،لہٰذا اس کے ذریعہ ترجیح ہوگی،اسی لئے اکثر جگہوں پر استحسان کو قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے وہ قوتِ تاثیر کی وجہ سے ہی ہوتی ہے ۔
(۲)دوسری وجہ ِترجیح قوتِ ثبات ہے ،یعنی وصف کا ثبات اور لزوم حکم پر قوی ہو،یعنی ایک قیاس کا وصف اپنے حکم کے ساتھ زیادہ لازم ہو،اور دوسرے قیاس میں وصف کا اس طرح کا لزوم نہ ہو،تو لازم کو غیر لازم پر ترجیح ہوگی جیسے امام شافعیؒ سرکے مسح کو اعضاء ِمغسولہ پر قیاس کرتے ہیں اور علت رکنیت ہے ،اور اعضائِ مغسولہ کی طرح سرکے مسح میں بھی تکرار و تثلیث کو مسنون قرار دیتے ہیں،__لیکن ہم عدمِ تثلیث کے قائل ہیں،ہم نے مسحِ راس کو مسح کی دوسری صورتوں ،مسح علی الخفین وغیرہ پر قیاس کیا، اور علت مسح کرنا ہی ہے، یعنی جس طرح مسح ہونے کے سبب مسح علی الخفین وغیرہ میں تخفیف مسنون ہے ،ایسے ہی مسح علی الراس میں بھی تخفیف مسنون ہے،__یہاں امام شافعی ؒنے جو وصف یعنی علت بتائی رکنیت یہ تکرار کے لئے زیادہ اثبت والزم نہیں ہے،کیونکہ رکنیت کے سبب تکرار یہ وضو میں اعضائِ مغسولہ کے علاوہ کہیں نہ ملے گا،رکنیت تو کئی جگہ ہے مگر تکرار نہیں ہے ،جیسے نماز میں قیام ،رکوع، سجود وغیرہ سب ارکان ہیں، مگر تکرار نہیں ہے بلکہ اکمال وتعدیل ہے ،لہٰذا رکنیت کا وصف تکرارکے لئے الزم نہیں__ اور ہم نے جو وصف بیان کیا وصف ِمسح یہ تخفیف وعدم تکرار کے لئے الزم واثبت ہے،یعنی جہاں بھی مسح ہے وہاں تخفیف ہے اور عدمِ تکرار ہے جیسے مسح علی الخفین ،مسح علی الجبیرہ ،تیمم میں مسح وغیرہ __لہٰذا وصفِ مسح کی علت سے احناف کا جو قیاس ہے وہ راحج ہوگا، شوافع کے وصف ِ رکنیت کی علت والے قیاس پر کیونکہ ہمارے قیاس کا وصف حکم کے زیادہ لازم وثابت ہے۔
کوئی سوال کرے کہ بغیر پانی کے ڈھیلے سے کوئی استنجا کرے تویہ مسح ہے ،اور اس میں توعدمِ تکرار نہیں ہے، بلکہ تکرار مسنون ہے، اس کا جواب دیا کہ ہماری مراد وہ جگہیں ہیں جہاں مسح سے طہارت غیرِ معقول ہو، اور ڈھیلے سے استنجاء میں طہارت معقول ہے، کیونکہ اس سے نجاست کا زوال ہورہا ہے۔
وَالتَّرْجِیْحُ بِکَثْرَۃِ الْاُصُوْلِ لِاَنَّ فِیْ کَثْرَہِ الْاُصُوْلِ زِیَادَۃَ لُزُوْمِ الْحُکْمِ مَعَہٗ وَالتَّرْجِیْح بِالْعَدَمِ عِنْدَ عَدَمِہٖ وَھُوَ اَضْعَفُ مِنْ وُجُوْہِ التَّرْجِیْحِ لِاَنَّ الْعَدَمَ