اور ضرورت کا مطلب یہ ہے کہ غیر فقیہ راوی کی حدیث اگر قیاس کے مخالف ہو اور اس وقت بھی حدیث پر ہی عمل کیا گیا تو قیاس کا دروازہ بالکل بند ہوجائے گا، حالانکہ اللہ تعالی نے ’’فاعتبروایا اولی الابصار‘‘کے ذریعہ قیاس کا حکم فرمایا ہے۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ راوی غیر فقیہ ہے تو احتما ل ہے کہ اس نے روایت بالمعنی کی ہو،کیونکہ صحابہ میں روایت بالمعنی کا طریقہ رائج تھا ،قوی امکان ہے کہ راوی نے غیر فقیہ ہونے کی وجہ سے آپﷺ کا مقصد نہ سمجھا ہو،غلطی کی ہو،روایت بالمعنی کردی ہو،لہٰذا قیاس کے خلاف ہونے کی صورت میں غیر فقیہ راوی کی روایت ترک کردی جائے گی۔
وذلک مثل حدیث ابی ھریرہ:-غیر فقیہ راوی کی روایت جو قیاس کے مخالف ہو اس کی مثال ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مُصَرَّاۃ ہے، وہ حدیث ہے ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لاتصر واالابل والغنم فمن ابتاعھا بعد ذلک فھو بخیر النظرین بعد ان یجلبھا ان رضیھا امسکھا وان سخطھاردھا وصاعًا من تمر،(مسلم)
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اونٹوں اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو، پس جس نے اس جانور کو خریداتصریہ کے بعد، تو اس کو دوہنے کے بعد مشتری کو اختیار ہے، پسند ہوتو رکھ لے اور ناپسند کرے تو وہ جانور واپس لوٹادے اور ایک صاع کھجور بھی دیدے۔
تصریہ کہتے ہیں جانور کے تھنوں میں دودھ جمع کرنا، تاکہ اس کے تھن بھرے ہوئے ہوں اور اس کی قیمت اچھی ملے، یہ مشتری کے ساتھ دھوکہ ہے، اس لئے مشتری کو اختیار ہے ،چاہے تو رکھ لے چاہے تو واپس کرے اور جو دودھ دوہا ہے اس کے بدلہ ایک صاع کھجوردیدے __ یہ حدیث ہر طرح سے قیاس کے مخالف ہے ،کیونکہ کسی نقصان کی تلافی کے لئے قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ذوات الامثال میں مثل سے ضمان ہو، اور ذوات القیم میں قیمت سے ضمان ہو، اور یہاں ہر حال میں ایک صاع کھجور واجب ہے، جو دودھ کا نہ مثل صوری ہے نہ معنوی یعنی قیمت ، ایک صاع کھجور کو قیمت بھی نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ اگر قیمت ہے تو دودھ کے برابر ہونی چاہیے، اور یہاں چاہے جتنا بھی دودھ نکالا ہو، ایک صاع تمر واجب ہے، بہرحال یہ حدیث قیاس کے بالکل مخالف ہے، لہٰذا حدیث کو چھوڑدینگے اور بیع منعقد ہوجائے گی اور مشتری کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہ ہوگا، کیونکہ بیع کو واپس کرنے کا اختیار صرف اسی صورت میں ہوتا ہے جب مبیع میں عیب ہو اور یہاں مبیع صحیح سالم ہے، صرف اس کے ثمرہ (دودھ) میں کمی ہوئی ہے، اور ثمرہ کے معدوم ہونے سے مبیع معدوم نہیں ہوتی تو ثمرہ میں کمی سے بدرجہ اولی بیع معدوم نہ ہوگی لہٰذا مبیع کو واپس کرنے کا اختیار نہ ہوگا، امام صاحب کا