وانما یصح التعلیل :-ایک اعتراض کا جواب ہے، جس کی تقریر یہ ہے کہ احکامِ مشروعہ اور متعلقاتِ احکام ادلۂ ثلثہ کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہوتے ہیں،قیاس سے نہیں ثابت ہوتے تو ان احکام ومتعلقات کو قیاس کے باب میںکیوں بیان کیا گیا؟ قیاس سے ان کا کیا جوڑہے؟
اس کا جواب دے رہے ہیں کہ ان تمام چیزوں کے پہنچاننے کے بعد ہی قیاس ہوسکتا ہے،یعنی قیاس کے لئے ضروری ہے کہ احکام اور متعلقاتِ احکام یعنی اسباب ،علل اورشروط وغیرہ کا علم ہو،کیونکہ قیاس کی غرض حکمِ معلوم کو اس کی شرط ِمعلوم اور سبب ِمعلوم اور وصفِ معلوم کے ساتھ فرع کی طرف متعدی کرنا ہے، تو جب تک احکام ومتعلقاتِ احکام کی معرفت نہ ہوگی ان سب چیزوں کی رعایت نہیںہوسکتی۔
اس لئے ان کو قیاس کے باب کے ساتھ لاحق کردیا گیا ،تا کہ طر یقِ تعلیل کے مضبوط ومستحکم ہونے کے بعد یہ معرفت قیاس تک رسائی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائے ۔
پھر احکامِ مشروعہ کی چار قسمیں ہیں؛
(۱)خالص اللہ کے حقوق ،جن کے بجالانے میں صرف اللہ کی جانب کی رعایت ہو،بندوں کی رعایت مطلوب نہ ہو جیسے نماز،روزہ،زکوۃ ،__یا اس سے مرادوہ احکام ہیں جن سے عام لوگوں کا نفع وابستہ ہو جیسے زنا کی حرمت ،اس سے نسب کی حفاظت مقصود ہے جس کا نفع عام لوگوں سے متعلق ہے،__اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا اور اللہ کا حق کہنا شرف وعظمت کے لئے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات نفع سے بلند وبالا ہے۔
(۲)خالص بندوں کے حقوق،جس سے خاص افراد کے مصالح متعلق ہوںجیسے غیر کے مال کو غصب کرنا ،جس میں مالک کا نفع ملحوظ ہے،
(۳)حق اللہ اور حق العبد دونوں ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حق غالب ہوجیسے حدِّقذف،یہ اس لحاظ سے تو حق اللہ ہے کہ فعلِ منہی عنہ (پاکدامن بندہ کی ہتکِ عزت )کی سزا ہے__ اور اس لحاظ سے حق العبدہے کہ اس میں خاص بندہ کے ننگ وعار کا ازالہ ہے،__لیکن حق اللہ اس میں غالب ہے ،اسی لئے اس میں نہ وراثت جاری ہوتی ہے کہ مقذوف کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء حد کا دعوی کریں،نہ معاف کرنے سے حد معاف ہوسکتی ہے،__امام شافعیؒ کے نزدیک اس میں حق العبد غالب ہے اس لئے ان کے نزدیک اس میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے،اور معاف کرنے سے حدمعاف بھی ہوجاتی ہے۔
(۴)حق اللہ اور حق العبد دونوں جمع ہوں اور بندے کا حق غالب ہو،جیسے قصاص__ اس میں اللہ کا حق اس لحاظ سے ہے کہ پورے عالم کو قتل وفساد سے بچانا ہے،اور مقتول کی جان کا بدلہ ہے اس لحاظ سے حق العبد ہے__ اور