علیہ میں علت کا تعین کردینا ،مجہتد کے دل میں کسی چیز کے علت ہونے کا خیال پیدا ہوجانا اس کے علت بننے کے لئے کافی ہے،عدالت شرط نہیں ہے یعنی امام شافعیؒ کے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے کہ اس علت کا اثر کسی اور جگہ ظاہر ہو چکا ہو،__اور ہمارے نزدیک موافقت کے بعد عدالت بھی ضروری ہے، یعنی اس علت کا اثر کسی اورجگہ ظاہر ہوچکا ہو،بغیر عدالت کے وصف پر عمل واجب نہیںہے،کیونکہ موافقت کے پائے جانے کے باوجود وہ وصف شارع کی طرف سے مردود ہونے کا احتمال رکھتا ہے__ اس کی مثال ایسی ہے جیسے گواہ اس میں دوچیزیں ضروری ہیں (ا)اہلیت وصلاحیت (۲)عدالت (دیانت)، گواہ میں پہلی شرط ہے اہلیت وصلاحیت یعنی عاقل ، بالغ ،آزاد وغیرہ ،اور عدالت نہیں ہے تو قاضی اس کی گواہی کو رد کرسکتا ہے،کیونکہ عدالت نہیں ہے وہ فاسق ہے __لہٰذا قبل العدالۃ وصف ِ جامع میں عمل واجب نہیں ہے۔
فیتعرف صحتہ: - وصف میں عدالت کا پتہ اس طرح چلے گا کہ نص یا اجماع سے اس وصف کا اثر کسی اور جگہ بھی ظاہر ہوا ہے،تو اس وصف میں عدالت ثابت ہوجائے گی ،لہٰذا عمل واجب ہوگا جیسے مال کی ولایت میں صغر کا اثر ہے یعنی صغر کی وجہ سے مالی تصرف کا حق شریعت نے ولی کو دیدیا ،کیونکہ بچہ بوجہ صغر مالی تصرف سے عاجز ہے،اس لئے ولی کو حقِ تصرف اور حقِ ولایت شریعت نے دیا یہ مسئلہ اجماع سے ثابت ہے،__اور صغر کی وجہ سے جیسے مالی تصرف سے عجز ہے ایسے ہی صغیر اپنے نفس میں تصرف سے بھی عاجز ہے،لہٰذا اس علت ِصغر کی وجہ سے ولایت فی النفس یعنی ولایتِ نکاح بھی ثابت ہو جائے گی ،__ پس ولایتِ نکاح کے لئے ہم نے صغر کو علت بنایا کیونکہ یہ ایسی علت ہے جس کا اثر اور جگہ ظاہر ہوچکاہے،چونکہ اجماع سے اس کا ولایت ِمال میں علت ہونا ثابت ہوچکا ہے۔
وھو نظیر صدق الشاھد:-وصف کی صحت معلوم ہوگی اس کے اثر کے ظاہر ہونے سے ،اس کی نظیر یہ ہے جیسے گواہ ،اس کی اہلیت ثابت ہونے کے بعد اس کا صدق وعدل اس کے دینی اثر کے ظاہر ہونے سے معلوم ہوگا ، اس طرح کہ وہ معاصی اور کبائر سے بچتا ہے ،اب اس کی شہادت قبول کرنا واجب ہے،اسی طرح وصف کے لئے حکم کی علت بننے میں اس کی صلاحیت ثابت ہونے کے بعد اس کی عدالت ثاثیر سے معلوم ہوگی یعنی اس کا اثر کسی جگہ میں نص اور اجماع سے ظاہر ہوچکا ہو، پھر وصف پر عمل واجب ہوگا یعنی اس کو حکم کی علت بنایا جائے گا۔
ولما صارت العلۃ:-استحسان کہتے ہیں قیاس خفی کو ،امام ابوحنیفہؒاستحسان کے قائل ہیں،اسی لئے احناف کبھی قیاس کو چھوڑ دیتے ہیں ،اور استحسان پر عمل کرتے ہیں ،معترض اعتراض کرتا ہے کہ ادلۂ شرع تو چار ہیں ،یہ پانچویں دلیل استحسان آپ کہاں سے لائے؟ دوسری بات یہ کہ آپ استحسان کے مقابلہ میں قیاس کوچھوڑ دیتے ہیں،اس کا مطلب ہوا دلیل شرعی کو چھوڑ کر غیر شرعی دلیل پر عمل کرنا یہ کیسے درست ہوگا؟