حرمتوں اور کرامتوں کو ثابت کرنے میں یہ ولدہی اصل ہے، اولاًولد میں حرمت ثابت ہوتی ہے یعنی ولد پر واطی اور موطوء ہ کے اصول وفروع حرام ہوتے ہیں، پھر بچہ سے یہ حرمت اس کے طرفین یعنی واطی اور موطوء ہ کی طرف متعدی ہوتی ہے ، یعنی واطی کے اصول وفروع موطوء ہ پر اور موطو ء ہ کے اصول وفروع واطی پر حرام ہوجاتے ہیں، __ پھر اسی طرح یہ حرمت کا ایجاب ولد سے اسبابِ ولد کی طرف متعدی ہوتا ہے ،یعنی جیسے ولد سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے ،اسی طرح ولد کے اسباب یعنی وطی ، شہوت سے چھونا، فرج ِداخل کو دیکھنا وغیرہ سے بھی حرمت ثابت ہوجاتی ہے__ الغرض زناسے حرمت ِمصاہرت براہِ راست نہیں ثابت ہوتی بلکہ ولد کے واسطہ سے ثابت ہوتی ہے اور ولد میں کوئی گناہ ، زیادتی یا حرمت نہیں ہے، زنا تو اس کا ایک سبب ہے، جیسے وطیٔ حلال ولد کاسبب ہے ایسے ہی وطیٔ حرام بھی ولد کا سبب ہے۔
وماقام مقام غیرہ:-کوئی کہے کہ صاحب زنا ہے تو حرام ہی، چاہے حرمت ولد کے واسطہ سے ہوئی مگر زنا جوفعل حرام ہے وہی تو سبب بنا-- تو فرماتے ہیں کہ زنا سے بالذات حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہورہی ہے بلکہ زنا ولد کے قائم مقام بن کے کام کررہا ہے، اور جو چیز دوسرے کے قائم مقام بن کر کام کرے ،تو اس نائب اور قائم مقام ہونے والی چیز کے اوصاف نہیں دیکھے جاتے بلکہ جس کے قائم مقام یہ بنا ہے اور جو اصل ہے اس کا وصف دیکھا جاتا ہے __ جیسے تیمم میں مٹی کو پانی کے قائم مقام بنایا ،تو اب مٹی کا وصف نہیں دیکھا جائے گا ، مٹی کا وصف تو ہے تلویث، ملوث کرنا یہ تو بجائے پاک کرنے کے اور گندہ کرے گی ،مگر اس کا وصف تلویث نہیں دیکھا جائے گا بلکہ اصل یعنی پانی کا وصف یعنی اس کا مُطَہِّر ہونا دیکھا جائے گا__ اسی طرح یہاں جب زنا ولد کے قائم مقام ہوگیا تو زنا کا جو وصف حرمت ہے وہ ساقط ہوجائے گا، وہ نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ اصل یعنی ولد کا وصف دیکھا جائے گا اور ولد میں کوئی حرمت نہیں ہے۔
الغرض زنا اگر چہ من حیث الزنا ممنوع اور حرام ہے، مگر جب یہ ولد کا قائم مقام بن گیا تو اس کی حرمت ساقط ہوگئی، اور حرمتِ مصاہرت ثابت کرنے کے حق میں یہ حرام وممنوع نہیں رہا، لہٰذا حرام وممنوع چیز کو حکم شرعی کا سبب بنانے کا اعتراض احناف پر لازم نہ ہوگا۔
فَصْلٌ فِیْ حُکْمِ الْاَمْرِ وَالنَّھْیِ فِیْ ضِدِّ مَا نُسِبَا اِلَیْہِ اِخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِیْ ذٰلِکَ وَالْمُخْتَارُ عِنْدَنَا اَنَّ الْاَمْرِ بِالشَّئِ یَقْتَضِیْ کَرَاھَۃَ ضِدِّہٖ لَااَنْ یَکُوْنَ مُوْجِبًالَہٗ اَوْدَلِیْلاًعَلَیْہِ لِاَنَّہٗ سَاکِتٌ عَنْ غَیْرِہٖ وَلٰکِنَّہٗ یَثْبُتُ بِہٖ حُرْمَۃُ الضِّدِّّ ضَرُوْرَۃَ حُکْمِ الْاٰمِرِ وَالثَّابِتُ بِھٰذَا الطَّرِیْقِ یَکُوْنُ ثَابِتًا بِطَرِیْقِ الْاِقْتِضَاءِ دُوْنَ الدَّلَالَۃِ وَفَائِدَۃُ