گنہگار ہوگا، اور نہ اس پر حد وقصاص جاری ہوگا، لہٰذا شب زفاف میں شوہر کے پاس کوئی دوسری عورت بھیجی گئی اور اس نے اپنی بیوی سمجھ کو جماع کرلیا، تو نہ اس پر حد واجب ہوگی نہ گنہگار ہوگا،ایسے ہی خطاً اگر کسی کو قتل کردیا تو اس پر قصاص نہیں آئے گا، لیکن ترکِ احتیاط کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کوتاہی ضرور ہے ،اس کی وجہ سے اس پر کفارہ اور اس کے عاقلہ پر دیت واجب ہوگی، اگر چہ جزائِ کامل یعنی قصاص نہ آئے گا مگر جزائِ قاصر یعنی دیت وکفارہ واجب ہوگا، اور خاطی کی طلاق واقع ہوجائے گی، اور جیسے مُکْرَہ کی بیع منعقد ہوتی ہے ایسے ہی خاطی کی بیع بھی منعقد ہوجائے گی۔
واما السفر:-عوارض مُکْتَسبَہ میں سے چھٹا عارض سفر ہے، جو تخفیف کے اسباب میں سے ہے، اور سفر کی وجہ سے چار رکعت والی نمازوں میں قصر ہوگا یعنی دورکعت پڑھے گا، اور روزہ میں بھی تاخیر کی اجازت ہوگی، اور مرض میں بھی روزے کی تاخیر کی اجازت ہوتی ہے، مگر مرض اور سفر میں فرق ہے، سفر اختیاری امور میں سے ہے، اور مرض بندے کے اختیار کی چیز نہیں ہے، نیز سفر ایسی ضرورت کو واجب نہیں کرنا جو داعی الی الافطار ہو،یعنی مسافر روزہ توڑنے پر مجبور ہوجائے ایسا نہیں ہے بلکہ بغیر مشقت کے روزہ رکھنے پر قادر ہوتا ہے،بلکہ سفر کو ترک کرکے ضرورت پوری کرسکتا ہے اور مرض ایسی ضرورت کو واجب کرتا ہے جو داعی الی الافطار ہو یعنی مریض روزہ توڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے،پس جب مرض اور سفر میں فرق ہے توجو شخص مسافر ہو اور صبح کو اس نے روزہ کی نیت کی، یا مقیم ہے اور روزہ کی نیت کرلی، پھر اس نے سفر شروع کیا، تو دونوں صورتوں میں افطار (روزہ توڑنا)درست نہ ہوگا،کیونکہ روزہ شروع کرنے سے لازم ہوگیا ،اور مسافر روزہ پر قادر بھی ہے،کوئی ایسی لازمی ضرورت بھی نہیں جو داعی الی الافطارہو،لہٰذا اگر افطار کرے گا تو گنہگار ہوگا،برخلاف مریض کے کہ اس نے اگر بتکلیف روزہ رکھا ، پھر توڑ دیا تو اس پر کفارہ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ نفسِ سفر جو مبیحِ افطار ہے وہ موجودہے تو اس شبہ کی وجہ سے اگر وہ روزہ توڑدے گا تو کفارہ واجب نہ ہوگا،صرف قضا لازم ہوگی،لیکن اگر مقیم نے بحالت اقامت روزہ توڑدیا اور پھر سفر شروع کیاتو کفارہ واجب ہوگا،کیونکہ یہاں شبہ نہیں ہے ،اس لئے کہ سفر جو افطار کو مباح کرنے والا ہے وہ روزہ توڑنے کے بعد پایا گیا،اس کے برخلاف اگر تندرست صائم نے روزہ توڑدیا، پھر بیمار ہوا تو اس پر کفارہ واجب نہ ہوگا،کیونکہ مرض بندے کی اختیاری چیز نہیں ہے ،بلکہ امرِ سماوی ہے ،تو یہ ایسا ہوگیا کہ گویا اس نے بیماری کی حالت میں افطارکیا،اور بیماری کی حالت میں افطار کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے۔
وَاَمَّا الْاِکْرَاہُ فَنَوْعَانِ کَامِلٌ یُفْسِدُ الْاِخْتِیَارَ وَیُوْجِبُ الْاِلْجَاءَ وَقَاصِرٌ یَعْدِمُ الرِّضَاءَ وَلَایُوْجِبُ الْاِلْجَاءَ وَالْاِکْرَاہُ بِجُمْلَتِہٖ لَایُنَافِیْ اَھْلِیَّۃً وَلَایُوْجِبُ وَضْعَ