جواب نقل کررہے ہیں ۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے قسم کھائی کہ میں فلاں کے گھر میں قدم نہیں رکھونگا__ تو قدم رکھنے کے حقیقی معنی ہیں ننگے پیر داخل ہونا ،پیدل داخل ہونا، اور مجازی معنی ہیں جوتے پہن کر داخل ہونا، سوار ہوکر داخل ہونا۔
اور گھر میں داخل ہونے کی قسم کھائی تو گھر کے حقیقی معنی ہیں اس کی ملکیت کا گھر ،اور مجازی معنی ہیں عاریت کایا کرایہ کا گھر __تو حقیقی اور مجازی دونوں میں سے ایک معنی مراد ہونا چاہیے ،حالانکہ آپ کہتے ہیں کہ وہ ننگے پیر داخل ہو ،پیدل داخل ہو یا جوتے پہن کر،سوار ہوکر داخل ہو ہر صورت میں حانث ہوجائے گا ،یہ حقیقت ومجاز کو جمع کرنا ہوا۔
ایسے ہی وہ گھر چاہے اس کی ملکیت کا ہویا عاریت کا ،کرایہ کا ہو چاہے جو بھی ہو ،جب بھی وہ گھر میں داخل ہوجائے گا تو ہر صورت میں حانث ہوجائے گا تو یہ بھی حقیقت ومجاز کو آپ نے جمع کردیا۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب کسی نے کہا ’’للہ علی ان اصوم رجبا‘‘اللہ کے لیے میرے ذمہ ہے کہ میں رجب کا روزہ رکھوں،تو اس کلام کے حقیقی معنی یہ ہیںکہ نذر ہو، کیونکہ اس کے نذر منعقد ہونے کے لئے نیت کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ،معلوم ہوا کہ نذر اس کے حقیقی معنی ہیں،اور مجازی معنی یمین کے ہے ،یمین مجازی معنی اس لئے ہے کہ اس میں یمین مراد لینے کے لئے نیت کی ضرورت پڑتی ہے اور نیت کی احتیاج یہ مجاز کی علامت ہے۔
بہر حال حقیقی معنی نذر ہے اور مجازی معنی یمین ہے ،تو دونوں میں سے کوئی ایک معنی مراد ہونا چاہیے، حالانکہ امام ابو حنیفہ ومحمدؒ کے نزدیک یہ کلام نذر اور یمین دونوں ہوتا ہے، تو یہ حقیقت ومجاز کا جمع کرنا ہوا ، آگے مصنف ؒدونوں اعتراض کے جواب نقل کررہے ہیں ۔
نذر اور یمین میں فرق:-نذر کو پورا کرنا ضروری ہے اگر پوری نہ ہوسکی تواس کی قضا ضروری ہے، اس میں کفارہ واجب نہیں ہے،اور یمین میں حکم یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے اگر نہ کرسکا تو قضا نہیں بلکہ کفارہ واجب ہے۔
قُلْنَا وَضْعُ الْقَدَمِ صَارَ مَجَازًا عَنِ الدُّخُوْلِ وَاِضَافَۃُ الدَّارِ یُرَادُبِھَا نِسْبَۃُ السُّکْنٰی فَاعْتُبِرَ عُمُوْمُ الْمَجَازِ وَھُوَ نَظِیْرُ مَالَوْ قَالَ عَبْدُہٗ حُرٌّ یَوْمَ یَقْدَمُ فَلَانٌ فَقَدِمَ لَیْلًا اَوْنَھَارًا عَتَقَ لِاَنَّ الْیَوْمَ مَتٰی قَرَنَ بِفِعْلٍ لَایَمْتَدُّ حُمِلَ عَلٰی مُطْلَقِ الْوَقْتِ ثُمَّ الْوَقْتُ یَدْخُلُ فِیْہِ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ
ترجمہ:-ہم کہیں گے کہ وضع قدم (قدم رکھنا )دخول سے مجاز ہوگیا اور دار کی اضافت اس سے مراد ہے سکنی کی نسبت ،تو عموم مجاز کا اعتبار کیا گیا،اور یہ اس کی نظیر ہے کہ اگر کسی نے کہا کہ اس کا غلام آزاد ہے جس دن فلاں آئے