ہیں ان میں قیاس کومُقَدَّم رکھا جائے گا۔
مصنف کہتے ہیں علی الترتیب فی الحجج یعنی حجتوں میںجو ترتیب ہے اس کا لحاظ کیا جائے گا، یعنی دو آیتوں میں تعارض کے وقت سنت کی کی طرف، اور دوسنتوں میں تعارض کے وقت اقوالِ صحابہ پھر قیاس کی طرف اور بقول بعض جس میں صاحب ِحسامی بھی ہیں کہ قیاس پھر اقوالِ صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
دوسنتوں میں تعارض کی مثال ابوداؤد کی حدیث ہے عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہماسے کہ رسول اللہ ﷺ نے صلوۃِ کسوف پڑھی اور ہررکعت میں ایک رکوع اور دوسجدے کئے،اس کے معارض ایک دوسری حدیث ہے جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ حضورﷺنے دورکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کئے یعنی ہررکعت میں دورکوع اور دوسجدے کئے،تودونوں حدیثوں میں تعارض ہوگیا، لہٰذا تعارض دورکرنے کے لئے ہم نے قیاس کی طرف رجوع کیا،اور صلوۃ ِکسوف کو دیگر نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے کہاکہ صلوۃ کسوف میں بھی ایک رکعت میں ایک رکوع اور دوسجدے ہوں گے ،مصنف کہتے ہیں کہ مابعد کی دلیلوں کی طرف رجوع اسی وقت ہوگا جب ممکن ہو،اگر ممکن نہ ہوتو رجوع کرنا درست نہ ہوگا،بلکہ تقریر الاصول واجب ہوگا ،اس کی آگے وضاحت کررہے ہیں۔
لان التعارض لماثبت:-حکم معارضہ کی دلیل بیان کررہے ہیں کہ جب دوحجتوں میں تعارض واقع ہوتو دونوں حجتیں ساقط ہوجائیں گی ،کیونکہ تعارض کی وجہ سے دونوں حجتیں ایک دوسرے کو دفع کرے گی ،پھر مابعد کی حجتوں کی طرف رجوع کیاجائے گاجو ان دومتعارض حجتوں کی جنس سے نہ ہوںجیسے دوآیتوں میں تعارض کے وقت سنت کی طرف رجوع کیاجائے گا اور سنت آیتوں کی جنس سے نہیں ہے، اسی طرح دیگر حجتوں میں۔
وعندتعذرالمصیر الیہ: -اگر دو آیتوں میں تعارض کے وقت تیسری حجت کی طرف رجوع مشکل ہو،اس طرح کہ دوسنتوں میں بھی تعارض ہوجائے ،اقوال صحابہ میں بھی اور دوقیاسوں میں بھی تعارض ہوجائے تو پھر تقریر اصول واجب ہوگا یعنی ہر چیز کو اس کی اصل پر رکھا جائے گا،یعنی تعارض سے پہلے جو حکم تھا اس کو برقرار رکھا جائے گا__ جیسے سورِحمار میں دلائل متعارض ہیں، حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے جھوٹے پانی کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس سے وضو کیا جاسکتا ہے تو آپ ﷺنے فرمایا ہاں__ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹا پاک ہے، اور دوسری حدیث ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے پالتوگدھوں کے گوشت سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ ناپاک ہے،__ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹا ناپاک ہے، کیونکہ جس کا گوشت ناپاک ہوتا ہے اس کا جھوٹا بھی ناپاک ہوتا ہے۔
سورِ حمار میں اقوال ِصحابہ بھی متعارض ہیں کیونکہ ابن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ گدھے کا جھوٹا ناپاک ہے، اور