تواتر کو پہنچی ہو، کیونکہ تواتر تک پہنچنے سے ان کا اتفاق علی الخطا ناممکن ہوگا، اور جمہور کی دلیل یہ ہے کہ اجماع کی حجیت اس امت کا فضل وشرف ہے، لہٰذا اس میں عدد کی شرط نہ ہوگی۔
پھر جمہور کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی زمانے میں ایک ہی مجتہد ہوتو اس کا قول حجت ہوگا یا نہیں، بعض کہتے ہیں کہ حجت ہوگا، اور اس کا قول اجماع کے درجہ میں ہوگا، کیونکہ امت میں اس کے علاوہ کوئی اور مجتہد موجود نہیں ہے تو لفظ امت اسی پر صادق آئے گا، دلیل ’’ان ابراھیم کان امۃ‘‘ امت کا اطلاق فرد واحد سیدنا ابراہیم ؑ پر ہے،__ بعض کے نزدیک ایک مجتہد کا قول حجت نہ ہوگا، کیونکہ اجماع کے لئے اجتماع ضروری ہے جو دو یا دو سے زائد سے ہوسکتا ہے۔
ولابالثبات علی ذلک:-اور اجماع منعقد ہونے کے لئے تمام مجتہدین کا موت تک اس اجماع پر قائم رہنا شرط نہیں ہے، یعنی اجماع منعقد ہونے کے لئے یہ شرط ہرگز نہیں ہے کہ تمام مجتہدین موت تک اپنے اجماع پر برقرار رہیں، اور ان سب کے مرنے کے بعد یہ اجماع منعقد ہوگا، بلکہ مجتہدین کے اجماع کرلینے کے فوراً بعد اجماع منعقد ہوجائے گا ،یہی جمہور کا مسلک ہے، مصنف ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جو اس کے قائل ہیں کہ مجتہدین کا موت تک اپنے اجماع پر قائم رہنا شرط ہے، اور ان سب کے مرجانے کے بعد اجماع منعقد ہوگا، کیونکہ زندگی میں اپنے اجماع سے رجوع کرنے کا احتمال ہے۔
وبمخالفۃ اھل الھوی:-اہل ہوی اور خواہش پرستوں کی مخالفت سے بھی اجماع میں کوئی فرق نہ پڑے گا، لیکن اسی چیز کے اجماع میں ان کی مخالفت سے فرق نہ پڑے گا جس چیز کی وجہ سے ھوی اور ضلالت کی طرف ان کی نسبت ہوئی ہے، جیسے ابوبکر صدیق کی فضیلت پر اجماع منعقد ہوگیا، اور روافض مخالفت کررہے ہیں تو یہاں ان کی مخالفت کا اعتبار نہ ہوگا، کیونکہ رفض کی طرف ان کی نسبت اسی لئے ہوئی ہے کہ وہ حضرت ابوبکر کی فضیلت تسلیم نہیں کرتے__ لیکن اگر روافض اس کے علاوہ دوسرے مسئلہ میں مخالفت کرتے ہیں تو ان کی مخالفت معتبر ہوگی ،حتی کہ اجماع منعقد نہ ہوگا__ یہاں تھوڑی تفصیل ہے، اگر مجتہد مبتدع کی بدعت مفضی الی الکفر ہے تو یہ کافر کے مانند ہوگا اس کا قول معتبر نہ ہوگا جیسے فرقۂ مجسمیہ جو اللہ کے لئے جسم ثابت کرتا ہے، اور روافض جو قران میں تحریف کے قائل ہیں، تو یہ کافر کے مانند ہیں ان کا قول معتبر نہ ہوگا، لہٰذا ایسے لوگوں کی مخالفت کا اجماع پر کوئی اثر نہ پڑے گا__ اور اگر اس کی بدعت مفضی الی الکفر نہیں ہے تو اس میں تین قول ہیں (۱)اس کا قول مطلقاً معتبر نہ ہوگا (۲)اس کا قول مطلقاً معتبر ہوگا (۳)اس کا قول اس کے حق میں تو معتبر ہوگا، دوسروں کے حق میں معتبر نہ ہوگا۔
ایک چوتھا قول بھی ہے جس کے قائل صاحب حسامی بھی ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر وہ بدعتی لوگوں کو بدعت کی دعوت نہ