وانتقال امرِحکمی ہے نہ کہ امرِحسی۔
مصنفؒ اس تمہید پر یہ مسئلہ متفرع کررہے ہیں کہ اگر کسی کو اکراہِ کامل کے ذریعہ غلام آزاد کرنے پر مجبور کیاگیا ،تو مکرَہ ہی اعتاق کا تکلم کرنے والا ہوگا اور مکرَہ کی طرف ہی اعتاق کی نسبت ہوگی،حتی کہ غلام کی وَلاء اسی کے لئے ہوگی،اور اس فعلِ اعتاق میں مکرَہ کو مکرِہ کا آلہ قرار دیکر اعتاق کی نسبت مکرِہ کی طرف نہ کریں گے،کیونکہ نسبت وانتقال کے لئے پہلی شرط یہ تھی کہ وہ فعل مکرِہ سے معقول ومتصور الصدور ہو،اور یہاں یہ ممکن نہیںہے کہ مکرَہ کی زبان سے مکرِہ کی طرف سے اعتاق کا صدور ہوسکے،اس لئے کہ انسان دوسرے کی زبان سے تکلم نہیں کرسکتا ،لیکن اعتاق کی وجہ سے مکرِہ غلام کی قیمت کا ضامن ہوگا،کیونکہ عبدِمُعْتَق کا اتلاف مکرِہ کی طرف منسوب ہوسکتا ہے،اس میں اس کی دونوں شرطیں پائی جاتی ہیں،اس لئے کہ مالیت ِ عبد کا اتلاف ایسا امر ہے جس کا صدور مکرِہ سے ممکن ہے،متصورہے،اوراس کا صدور حسًا نہیں ہے،لہٰذا انتقال کی دونوں شرطوں کے پائے جانے کی وجہ سے اتلاف مکرِہ کی طرف منتقل ہوجائے گا،لہٰذا ایسا ہوجائے گا گویا مالیت کو مکرِہ نے تلف کیا ہے،اور مکرَہ صرف آلہ ہے،پس غلام کی مالیت کا ضمان مکرِہ پر آئے گا۔
لانہ منفصل عنہ:-ایک سوالِ مقدر کا جواب ہے،جس کی تقریر یہ ہے کہ جب اعتاق مکرِہ کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا،تو پھر اتلاف جو اعتاق کے ضمن میں پایا جارہا ہے وہ بغیر عتق کے کیسے مکرِہ کی طرف منسوب ہوگا؟
جواب کا حاصل یہ ہے کہ اتلاف اور اعتاق لازم ملزوم نہیں ہیں کہ اعتاق نہ ہوتو اتلاف بھی نہ ہو،بلکہ بعض صورتوں میں دونوں ایک دوسرے سے الگ بھی ہوجاتے ہیں،جیسے کسی کے غلام کو قتل کردیا، تو اتلاف تو ہے اعتاق نہیں ہے،اور اتلاف اپنی اصل ہی سے یعنی ابتدا ہی سے انتقال کا احتمال رکھتا ہے پس اگر کسی نے کسی کو اپنا غلام قتل کرنے پر مجبور کیا اور مکرَہ نے غلام کو قتل کردیا تو یہ قتل واتلاف مکرِہ کی طرف منتقل ہوگا،مکرَہ صرف آلہ ہوگا،تو جب اتلاف ابتداء ً مکرِہ کی طرف منتقل ہوسکتا ہے توو ہ اتلاف جو اعتاق کے ضمن میں متحقق ہوا ہے ،وہ بھی اعتاق سے جدا ہوکر مکرَہ کی طرف منتقل ہوجائے گا۔
وھذا عندنا وقال الشافعی:-مصنفؒ فرماتے ہیں کہ اب تک کے اکراہ کے ذکر کردہ احکام امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کے مطابق ہیں،امام شافعیؒ کا مسلک اکراہ میں یہ ہے کہ اگر اکراہ ناحق ہوتو مکرَہ کے تمام قولی تصرفات مثل طلاق،عتاق وغیرہ باطل ہیں،اور اگر اکراہ برحق ہوتو مکرَہ کا تصرف معتبر ہوگا۔
چنانچہ اگر حربی کو اسلام پر مجبور کیا گیا،اور اس نے اسلام قبول کرلیا،اس کا اسلام صحیح ہے،اسی طرح اگر قاضی نے قرضدار کو اس کا مال بیچنے پر مجبور کیا اور قرضدار نے اپنا ل بیچ دیا تو درست ہے اس لئے کہ اکراہ برحق ہے۔