مقدمہ
کسی بھی فن کو شروع کرنے سے پہلے سات چیزوں کا جاننا ضروری ہے تاکہ اس فن کا آغاز بصیرت کے ساتھ ہوسکے (۱)فن کی تعریف(۲)فن کا موضوع(۳)فن کی غرض وغایت (۴)فن کادرجہ (۵) فن کا حکم (۶) فن کی تدوین (۷)مصنف کے حالات۔
(۱)اصول فقہ کی تعریف:-اصول فقہ مرکب ِاضافی ہے جو دوجزؤوںپر مشتمل ہے،اصول (مضاف)اور فقہ(مضاف الیہ)ہےپس اصولِ فقہ میں دونوں جزکی تعریف کا پیش نظر رہنا ضروری ہے، دونوں جز کی الگ الگ تعریف کا نام حد ِاضافی ہے،ا ور دونوں کی ایک ساتھ تعریف کرنے کا نام ہے حدلقبی ہے۔
اصول فقہ کی حد ِاضافی:-اصول جمع ہے اصل کی،جس کے لغوی معنی ہے’’مایبنی علیہ غیرہ‘‘ جس پر کسی دوسری چیز کی بنیادہو،علم اصولِ فقہ کو اصولِ فقہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس پر فقہ کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔
دوسرا جز ہے فقہ،فقہ کے لغوی معنی کسی چیز کو کھولنا،واضح کرنا،فقیہ اس عالم کو کہتے ہیں جو احکام شرعیہ کو واضح کرے،فقہ کی اصطلاحی تعریف،ھو العلم بالاحکام الشرعیۃ الفر عیۃ من ادلتھا التفصیلیہ ،احکامِ شرعیہ فرعیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننا ،جن احکام کا تعلق عمل سے ہوتا ہے ان کو احکامِ فرعیہ کہتے ہیں،اور جن احکام کا تعلق اعتقادسے ہوتا ہے ان کواحکام ِاصلیہ کہتے ہیں۔
اصول فقہ کی حد لقبی:-علامہ کمال الدین ابن الہمام نے ’’التحریر‘‘میںیوں تعریف کی ہے انہ ادراک القواعد التی یتوصل بھا الی استنبات الفقہ‘‘ کہ اصول فقہ ان قواعد کے جاننے کا نام ہے جن کے ذریعہ فقہ تک پہنچا جاسکے۔
(۲)اصول فقہ کا موضوع :ادلۂ اربعہ (کتاب،سنت،اجماع اورقیاس )ہیںاور احکام کا مجموعہ اصول فقہ کا موضوع ہے،بعض حضرات صرف ادلہ کو موضوع کہتے ہیں ،اور بعض صرف احکام کو موضوع کہتے ہیں، مگر پسندیدہ قول پہلا ہے، اور علم ِفقہ کا موضوع احکام عملیہ مع ادلۂ تفصیلیہ ہے، تو علم ِفقہ اور علم ِاصول فقہ دونوں کا توارد تو ادلہ پر ہی ہوتا ہے مگر ورود کی حیثیت مختلف ہے کہ ادلہ پر فقہ کا ورود باین حیثیت ہوتا ہے کہ ان سے احکام جزئیہ عملیہ کا استخراج ہو، اور اصول فقہ کا ورود ادلہ پر طریقِ استنباط واستدلال اور مراتبِ حجیت کی حیثیت سے ہوتا ہے۔
(۳)اصول فقہ کی غرض وغایت: احکام شرعیہ کو ادلۂ تفصیلیہ کے ساتھ جاننا، اور استنباطِ مسائل کے قواعد کو معلوم کرنا ہے۔
(۴)اصول فقہ کا درجہ ومرتبہ:جس علم کا موضوع جس درجہ کا ہوگا، اسی درجہ ومرتبہ کا وہ علم کہا جائے گا، چنانچہ اصول فقہ کا موضوع کتاب اللہ، سنت ، اجماع اور قیاس اور احکام ہیں، یہ سب چیزیں دینی اعتبار سے بلند مرتبہ ہیں، تو اس علم کا درجہ بھی بلند ہے۔