بھی آدمی سکوت کرتا ہے، کبھی سامنے والے کے عمر میں اور مرتبہ میں بڑا ہونے کی وجہ سے آدمی سکوت کرتا ہے، کبھی اس لئے سکوت کرتا ہے کہ اس کو اس مسئلہ پر غور وفکر کا موقع ہی نہیں ملا ہے،جیسے حضرت عمرؓ عول کے قائل تھے، جب صحابہ سے مشورہ کیا تو تمام صحابہ نے سکوت اختیار کیا مگر آپ کی وفات کے بعد حضرت ابن عباس نے عول کا انکار کیا، تو ان سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر کے زمانے میں آپ نے کیوں اس کو ظاہر نہیں کیا، تو کہنے لگے کان رجلا مھیبًا، حضرت عمر بڑے ہیبت ناک تھے__ تو ان مختلف احتمالات کے ہوتے ہوئے سکوت رضامندی کی دلیل نہ ہوگی، لہٰذا اجماع ہی نہ ہوگا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مجتہدین کے احوال کو دیکھتے ہوئے یہ سارے احتمالات خلافِ ظاہر ہیں، ان کا اعتبار نہ ہوگا، اور رہا حضرت ابن عباسؓ کا واقعہ تو یہ ثابت نہیں ہے، بلکہ حضرت عمرؓ تو حق کے معاملہ میں بہت نرم تھے، کان وقافا عند کتاب اللہ،کئی مواقع ہیں جہاں حضرت عمر حق کے سامنے جھک گئے ہیں ، لہٰذا یہ غلط ہے کہ حضرت ابن عباس نے خوف وڈر سے سکوت کیا تھا۔
(۳)تیسری قسم کا اجماع تابعین کا اجماع ہے، تابعین کا اجماع دو طرح کا ہے، پہلا یہ کہ تابعین نے ایسے امر پر اتفاق کیا جس میں صحابہ کے درمیان اختلاف نہیں رہا ہے، یہ مسئلہ دور ِصحابہ میں اٹھا ہی نہیں ہے،تو تابعین کا یہ اجماع بمنزلہ خبرِ مشہور کے ہوگا، جیسے تابعین نے استصناع کے جواز پر اجماع کیا، اور اس میں صحابہ کا کوئی اختلاف نہیں رہا ہے، استصناع کہتے ہیں سائی دیکر کوئی چیز بنوانا جیسے جوتا بنوانا وغیرہ، تو یہ اجماع کی تیسری قسم ہے۔
(۴)دوسرا تابعین کا اجماع یہ ہے کہ تابعین نے ایسے امر پر اجماع کیا ہے جس میں صحابہ کے درمیان اختلاف رہا ہے ،صحابہ کے مختلف موافق ومخالف اقوال ہیں، اور تابعین نے کسی ایک قول پر اجماع کرلیا ، جیسے ابتداء ً ام ولد کی بیع کے سلسلہ میں صحابہ میں اختلاف تھا، حضرت علی جواز کے قائل تھے، اور حضرت عمر عدمِ جواز کے قائل تھے، بعد میں تابعین نے عدمِ جواز پر اتفاق کرلیا، تو یہ اجماع کی چوتھی قسم ہے۔
فقد اختلف العلماء فی ھذا الفصل:-اجماع کی اس چوتھی قسم میں علماء کا اختلاف ہے، اصحاب ظواہر ، امام احمد بن حنبل وغیرہ کہتے ہیں کہ اجماع کی یہ قسم شرعا اجماع ہے ہی نہیں، حجت نہیں ہے، بلکہ یہ حکم اب بھی اجتہادی رہے گا، کیونکہ اس میں سب کا اتفاق نہیں پایا گیا، اس لئے کہ جن صحابہ کا اس میں مخالف قول ہے ،وہ صحابہ اس اجماع کے مخالف ہیں، اگر چہ وہ صحابہ وفات پاچکے ہوں، اس لئے کہ مخالف کی موت اس کے قول کو باطل نہیں کرتی ہے، بلکہ مرنے کے بعد بھی قول معتبر ہوتا ہے، ورنہ مذاہب ِاربعہ کا بطلان لازم آئے گا، لہٰذا جب مرنے سے قول باطل نہیں ہوا تو پوری امت کا اجماع نہ ہوا پس یہ حجت نہ ہوگا۔