وَوُجُوْبِ اَدَائِہٖ اَمَّا الْبَدَنِیُّ فَلَایَحْتَمِلُ الْفَصْلَ فَلَمَّا تَاٌخَّرَالْاَدَاءُ لَمْ یَبْقَ الْوُجُوْبُ
ترجمہ:-اور اس کا حاصل یہ ہے کہ امام شافعی ؒ نے وصف کو شرط کے ساتھ لاحق کیا ہے اور تعلیق بالشرط کو منعِ حکم میں عامل مانا ہے نہ کہ منعِ سبب میں اور اسی لیے امام شافعیؒ نے طلاق اور عتاق کو ملک پر معلق کرنے کو باطل قرار دیا ہے ، اور مال کے ذریعے کفارہ دینے کو جائز قرار دیا ہے حانث ہونے سے پہلے ، اس لیے کہ ان کی اصل کے مطابق وجوب سبب سے حاصل ہوجاتاہے ، اور وجوب ادا مسبب سے مؤخر ہوجاتا ہے شرط کی وجہ سے ، اور کفارۂ مالی نفس و جوب اور وجوب ادا کے درمیان فصل کا احتمال رکھتا ہے ، بہر حال کفارۂ بدنی پس وہ فصل کا احتمال نہیں رکھتا ہے ، پس جب ادا مؤخر ہوگئی تو وجوب باقی نہیں رہا۔
------------------------------
تشریح:-مصنف ؒفرماتے ہیں کہ امام شافعی ؒکے قول کا خلاصہ دو باتیں ہیں ،(۱)پہلی بات یہ کہ انہوں نے وصف کو شرط کے ساتھ لاحق کیا ہے یعنی جس طرح شرط نہ پائے جانے سے حکم نہیں پایا جاتاہے، اسی طرح وصف نہ پائے جانے سے بھی حکم نہیں پایا جاتاہے ،جس طرح’’ انت طالق ان دخلت الدار‘‘ کہا تو دخول دار شرط ہے،بغیر اس کے طلاق نہ ہوگی،اسی طرح اگر شرط کے بجائے وصف ِذکر کرے اور کہے (انت طالق راکبۃً) تو یہاں بھی بغیر وصف دخول کے طلاق نہ ہوگی ،تو امام شافعی ؒ کے نزدیک وصف ِشرط کے درجہ میں ہے۔(۲)دوسری بات یہ ہے کہ تعلیق بالشرط بالاتفاق مانع ہے ،لیکن مانع ِحکم ہے یا مانع ِسبب ہے؟تو امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ تعلیق بالشرط مانع ِحکم ہے یعنی شرط کے پائے جانے کے زمانہ تک حکم کو ثابت ہونے سے روک دیتی ہے،مانع سبب نہیں ہے بلکہ تعلیق بالشرط کے باوجود سبب منعقد ہوجاتا ہے ، جیسے شرطِ خیار بیع میں مانع ِحکم ہے نہ کہ مانع ِسبب یعنی خیار سے سبب یعنی بیع منعقد ہوجائے گی، البتہ خیار حکم سے مانع ہے ، یعنی خیار کی وجہ سے ابھی ملک کا ثبوت نہ ہوگا،جیسے مثال سے سمجھو بھاری قندیل کو رسی سے باندھ کر لٹکادیا ،تو قندیل کا بھاری پن اس کے گرنے کا سبب ہے اور گرنا حکم ہے اور رسی شرط کے درجہ میں ہے،تو رسی کی وجہ سے سبب یعنی بھاری پن زائل نہیں ہوا بلکہ رسی نے حکم یعنی گرنے کو روک دیا،سبب یعنی بھاری پن تو اپنی جگہ ثابت ہے ،بہر حال تعلیق بالشرط کی صورت میں امام شافعی کے نزدیک سبب موجود ہوگا ،فی الحال حکم ثابت کرنے والا ہوگا مگر تعلیق کی وجہ سے شرط کے پائے جانے تک حکم رک جائے گا ،اور ہمارے نزدیک تعلیق بالشرط مانع ِسبب ہے یعنی تعلیق کی صورت میں سبب ہی منعقد نہیں ہوتا ہے،لہٰذا جب سبب موجود نہیںہے تو حکم بھی موجود نہ ہوگا ۔
ولذلک ابطل سے مصنف ؒ امام شافعی کے قول پر دو تفریعی مسئلے ذکر کررہے ہیں ،(۱)پہلا مسئلہ یہ