وانما یظھر اثر الاکراہ:-ایک سوالِ مقدر کا جواب ہے، جس کی تقریر یہ ہے کہ اکراہ سے اقوال و افعال باطل نہیں ہوتے تو پھر اکراہ کا اثر کہاں ظاہر ہوگا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اکراہ کااثر دوباتوں میں ظاہر ہوگا،(۱)پہلی بات یہ ہے کہ اکراہ اگر کامل ہوتو اس کا اثر نسبت کی تبدیلی میں ظاہر ہوگا یعنی جو فعل مُکرَہ کی طرف منسوب تھا وہ مُکرِہ (بالکسر) کی طرف منسوب ہوجائے گا، بشرطیکہ وہ فعل تبدیلی کی صلاحیت رکھتا ہو،اور تبدیلیٔ نسبت کے لئے کو ئی مانع نہ ہو،(۲)اور دوسری بات یہ ہے کہ اکراہ اگر قاصر ہو تو رضا کو فوت کرنے میں اس کا اثر ظاہر ہوگا ،نہ کہ اختیار کو فوت کرنے میں یعنی اکراہِ قاصر سے رضا فوت ہوگی ،اختیار فوت نہ ہوگا،جیسے کسی کو قید وبندیا مارپیٹ کی دھمکی دیکر مجبور کیا گیا، تو رضا فوت ہوجائے گی مگر اختیار باقی رہے گا۔
پھر تفویت ِرضا پر تفریع کررہے ہیںکہ اکراہ چونکہ رضا کو فوت کردیتا ہے، چاہے اکراہ کامل ہو یاقاصر،تو وہ تمام معاملات جو فسخ کا احتمال رکھتے ہیں اور رضا پر موقوف ہوتے ہیں وہ اکراہ سے فاسد ہوجائیں گے جیسے بیع ،اور اجارہ ، یہ عقود فاسد ہوکر ان کا انعقاد رضا پر موقوف رہے گا،یعنی اکراہ کے ختم ہونے کے بعد مُکرَہ نے ان عقود کی اجازت دیدی تو صحیح ہوجائیں گے،البتہ وہ معاملات جن میں رضا مندی شرط نہیںہوتی ہے جیسے طلاق،عتاق تو یہ نافذ ہوجائیں گے جیسے غَیْر مُکْرَہ سے نافذ ہوتے ہیں۔
مصنفؒ فرماتے ہیں کہ تمام اقرار چاہے اکراہِ کامل سے ہوںیا قاصر سے،قابلِ فسخ تصرف کا اقرار ہویا ناقابلِ فسخ تصرف کا،صحیح نہیں ہیں،جیسے کسی کو قتل یامار پیٹ کی دھمکی دیکر یہ اقرار کروایا کہ بول میں نے ماضی میں غلام آزاد کیاہے،یا بیوی کو طلاق دی ہے یابیع کا معاملہ کیا ہے وغیرہ،تو اس اقرار سے کوئی حکم ثابت نہ ہوگا،اس لئے کہ اقرار میں سچ اور جھوٹ دونوں احتمال ہیں ،اور جانبِ صدق کو راحج قرار دینے کے لئے اقرار صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ مخبربہ یعنی بصورتِ اقرار جس کی خبر دے رہا ہے وہ واقع میں موجود ہو،اور یہاں مخبربہ واقع میں موجود نہیں ہے، اس کی دلیل اکراہ ہے،یعنی اکراہ دلیل ہے اس کی کہ اس نے اپنے بچاؤ کے لئے اقرار کیا ہے،مخبربہ خارج میں موجود نہیں ہے،لہٰذا سچ کی جانب راحج نہ ہوگی تواقرار صحیح نہ ہوگا۔
واذااتصل الاکراہ:-اگر خلع میں قبولِ مال کا اکراہ ہوتو طلاق واقع ہوجائے گی، اور مال واجب نہ ہوگا، جیسے مدخول بہا عورت کو ایک ہزار روپئے کے عوض خلع کرنے پر مجبور کیا گیا،اور عورت نے مجبوراً قبول بھی کرلیا، تو طلاق واقع ہوجائے گی اور مال واجب نہ ہوگا،اس لئے کہ اکراہ خواہ کامل ہویاقاصر سبب اور حکم دونوں پر رضا مندی کو معدوم کردیتا ہے یعنی مُکْرَہ نہ تو سبب یعنی عقد خلع پر راضی ہے ،نہ اس کے حکم یعنی مال قبول کرنے پر راضی ہے،مگر اکراہ میں اختیار معدوم نہیں ہوتا ،تو اختیار موجود ہونے کی وجہ سے عورت کا مال کو قبول کرنا معتبر ہے،اور جب عورت کاقبول