مرسل تابعی وہ ہے جس میں تابعی اپنے اور رسول اللہ ﷺکے درمیان صحابی کا واسطہ چھوڑکرکہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا۔
مرسل تبع تابعی جس میں راوی تابعی اور صحابی کاواسطہ ترک کردے اور کہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا
مرسل من وجہ دون وجہٍ یہ ہے کہ سنت ایک جہت سے مسند ہو اور دوسری جہت سے مرسل ہو یعنی ایک راوی نے ارسال کیا ہو، اور دوسرے راوی نے اتصال کیا ہو، یا ایک راوی نے ایک مرتبہ اسناد کیا ہو اور ایک مرتبہ ارسال کیا ہو، مصنف نے اس چوتھی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے اگرشروع سے آخر تک تمام واسطوں کو ذکر کیا گیا ہوتو یہ حدیث مسند ہے، اور محدثین کی اصطلاح میں مرسل وہ حدیث ہے جس میں تابعی صحابی کا واسطہ چھوڑدے ، پھر اس مرسل کی دو قسمیں ہیں (۱)منقطع (۲) معضل ، اگر راوی نے دو راویوں کے درمیان کے کسی واسطہ کو ترک کردیامثلاً جو شخص ابوہریرہ کا معاصرنہیں ہے وہ کہے قال ابو ھریرۃ ؓ، تو اس کو حدیثِ منقطع کہا جاتا ہے، اور اگر ایک سے زائد راویوں کو ترک کیا ہے تو اس کو حدیث ِمعضل کہتے ہیں،__ مگر اصولیین کے نزدیک یہ تمام احادیث مرسل کہی جائیں گی یہاں فقہاء اور اصولیین کی اصطلاح مراد ہے، نہ کہ محدثین کی۔
فالمرسل من الصحابی:-مرسل کی پہلی قسم یعنی مرسلِ صحابی سماع پر محمول ہے، یعنی یوں سمجھا جائے گا کہ صحابی نے رسول اللہ ﷺسے حدیث کو سنا ہے، اور بالاجماع مرسل صحابی مقبول ہے۔
اور دوسری اور تیسری قسم یعنی مرسلِ تابعی اور تبع تابعی بھی ہمارے نزدیک اور امام مالک ، امام احمد ابن حنبل وغیرہ کے نزدیک مقبول ہے،کیونکہ ارسال کرنے والے پر حدیث کے ثبوت کا معاملہ واضح ہوگیا ہے یعنی یوں سمجھا جائے گا کہ ُمرسِل کو اس کے حدیث ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس کو یقین ہے اسی لئے اس نے اپنے سے اوپر کے راوی کو ترک کردیا ہے، اگر اس کو ثبوتِ حدیث میں شبہ ہوتا تو راوی کو ترک نہ کرتا ، لہٰذا یہ دونوں بھی مقبول ہیں __البتہ امام شافعی ؒ اور اصحابِ ظواہر کے نزدیک یہ دونوں مقبول نہیں ہیں، ہاں اگر کسی حجتِ قطعیہ یا قیاسِ صحیح سے اس کی تائید ہوجائے یا مُرْسِل کو امت کی طرف سے قبولیت ِعام حاصل ہو، یا مُرسِل کی حالت سے یہ بات معلوم ہو کہ وہ صرف ثقہ لوگوں سے روایت کرتا ہے تو قبول ہے ورنہ نہیں۔
مصنف کہتے ہیں کہ یہ حدیثِ مرسل درجہ میں مسند سے بڑھ کر ہے، یہاں مسند سے مراد مسندِواحد ہے،مسندِ مشہور یا مسندِ متواتر مراد نہیں ہے، لہٰذا مرسل و مسند میں تعارض کے وقت مرسل کو ترجیح ہوگی، اور مرسل کے فائق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مُرسِل کو اس کے حدیث ہونے میں پورا وثوق واعتماد ہے اسی لئے وہ اپنے اوپر کے راوی کا ذکر چھوڑ