؟اس نے کہا نہیں ،بوڑھا ہوں ،پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا، اس نے کہا نہیں ،یا رسول اللہ !بہت غریب آدمی ہوں،حضور ﷺ نے فرمایا بیٹھ جا -تھوڑی دیر کے بعد آپ ﷺکے پاس کچھ کھجوریں وغیرہ صدقہ میں آئی ،تو حضور ﷺ نے پوچھا این السائل؟سائل کہاںہے ؟ وہ آیا تو آپ ﷺنے کہا کہ یہ کھجوریں صدقہ کردے تو وہ کہنے لگا اَعَلٰی اَفْقَرَمِنِّی یَارَسُوْلَ اللہِ ؟یا رسول اللہ میرے سے زیادہ محتاج پر؟ وَاللہِ مَا بَیْنَ لَابَتَیْھَا اَھْلُ بَیْتٍ اَفْقَرَ مِنْ اَھْلِ بَیْتِی __ مدینہ کے دو پہاڑوں کے بیچ میں میرے سے زیادہ کوئی گھرانہ ضرورت مند نہیں ،فَضَحِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ اَنْیَابُہُ __حضور ﷺ اس کی بات سن کر ہنس پڑے حتی کہ آپ ﷺکے انیاب دانت ظاہر ہوگئے __یہ حدیث خاص اس دیہاتی کے بارے میں بیان ہوئی ہے لہٰذا روزہ جان بوجھ کر توڑنے کی وجہ سے اس اعرابی کے لئے کفارہ کا ثبوت تو عبارت النص سے ہوا __مگر اس حدیث کے دلالت النص سے یہ ثابت ہوا کہ جو کوئی رمضان میں جان بوجھ کر روزہ تو ڑے گا اس پر کفارہ واجب ہوگا ۔
الا عند التعارض __یہاں یہ بتارہے ہیں کہ دلالت النص اور اشارۃ النص دونوں قطعی ہیں مگر تعارض کے وقت اشارۃ النص کو ترجیح ہوگی ۔
تعارض کی مثال :- اللہ تعالیٰ کا ارشادہے، مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ __اس آیت سے معلوم ہوا کہ قتل خطا میں کفارہ ہے ،یہ تو عبارۃ النص سے ثابت ہوا __اور اس آیت میں دلالۃ النص سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں بھی کفارہ ہے ،کیونکہ قتل ِعمد قتل ِخطا سے بڑا جرم ہے، تو جب ادنی میں ہے تو اعلی میں بدرجہ اولی کفارہ ہوگا جیسا کہ،امام شافعی ؒکا یہی مذہب ہے اوروہ اسی سے استدلال کرتے ہیں ، بہر حال اس آیت کے دلالت سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں کفارہ ہے __اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد ہے وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُ ہُ جَھَنَّمُ خَالِدًا فِیْھَا __ اس آیت کے اشارۃ النص سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں کفارہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے جزاء کا لفظ استعمال کیاہے ،اور جزا کے معنی کافی یعنی قتل عمد کی جزا جو بیان کی کہ جہنم ہے وہ کافی جزاء ہے ،اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جیسا کہ ہمارا مذہب ہے__ تو تعارض ہوگیا دلالت النص اور اشارۃ النص میں __لہٰذا اشارۃ لنص کو ترجیح ہوگی، پس قتل ِعمد میں کفارہ نہیں ہوگا ۔
احناف کے مسلک پر ایک اعتراض ہوسکتا ہے کہ جب پوری جزا جہنم ہے ،تو پھر قتل ِعمد میں قصاص اور بعض صورتوں میں دیت (جب با پ بیٹے کو قتل کرے یا قاتل اولیا ء مقتول سے صلح کرلے ) کیوں واجب کرتے ہیں ، __ جواب یہ دیاجائے گا کہ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں ،ایک فعل اور ایک محل ،آیت میں جہنم جو جزا بتائی گئی ہے وہ فعل کی جزاء ہے اور وہ پوری جزاء ہے ،اور قصاص اور دیت محل کی یعنی مقتول کی جزاء ہے جو اولیا کا حق ہے ۔