کوئی راستہ ہی نہیںہے، اور اس کے بیان کی امید بھی منقطع ہوجاتی ہے، متشابہ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو ہیئت ولباس بدل کر پردیس میں گم ہوگیا، اس کے ہم عصر لوگ بھی سارے ختم ہوگئے ،اب اس کے ملنے کی کوئی امید ہی نہیں ،ایسے ہی متشابہ کہ اس کے بیان کی امید ہی نہیں رہتی حتی کہ طلب بھی ساقط ہوجاتی ہے ۔
متشابہ کی دو قسمیں ہیں ( ۱)جس کے معنی ہی معلوم نہ ہوں ،نہ لغوی معنی ،نہ مرادی معنی جیسے حروفِ مقطعات۔ (۲)جس کے لغوی معنی تو معلوم ہوں، مرادی معنی معلوم نہ ہوں جیسے یداللہ ،وجہ اللہ ،الرحمن علی العرش استویٰ وغیرہ ، ان کے لغوی معنی تو معلوم ہے مگر مراد معلوم نہیں ہے ۔
متشابہ کا حکم یہ ہے کہ اس میں توقف کریں گے ،اور یہ اعتقاد رکھیں گے کہ اس سے اللہ تعالی کی جو بھی مراد ہے وہ حق ہے ،خود اس کے کوئی معنی نکالنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔
وَالْقِسْمُ الثَّالِثُ فِی وُجُوْہِ اِسْتِعْمَالِ ذٰلِکَ النَّظْمِ وَجَرَیَانِہِ فِی بَابِ الْبَیَانِ وَھِیَ اَرْبَعَۃٌ اَلْحَقِیْقَۃُ وَالْمَجَازُ وَالصَّرِیْحُ وَالْکِنَایَۃُ۔
ترجمہ:-اورتیسری تقسیم بیان معنی کے باب میں اس نظم کے استعمال اور ا س کے جاری ہونے کی قسموں میں ہے اور وہ چار ہیں حقیقت،مجاز،صریح،کنایہ۔
------------------------------
تشریح:-کتاب اللہ کی چار تقسیموں میں سے دو بیان ہوچکیں، تیسری تقسیم شروع کررہے ہیں ،فرماتے ہیں کہ لفظ جو معنی پر دلالت کرتا ہے اس کی تیسری تقسیم اس لفظ کے استعمال اور اس کے جریان کے اعتبار سے ہے،استعمال یعنی وہ لفظ معنی موضوع لہ میں، مستعمل ہے یا معنی غیر موضوع لہ میں ،اول حقیقت اور ثانی مجازہے،اور جریان کا مطلب ہے کہ وہ لفظ بیان وظہور معنی کے باب میں کس طرح جاری ہے ،بیان ِمعنی میں انکشاف ووضوح ہے یا استتار ہے،اول صریح اور ثانی کنایہ ہے ۔
مصنف ؒ نے استعمال اور جریان دولفظ ذکر کئے، حالانکہ صاحب منار وغیرہ نے استعمال کے لفظ پر اکتفا کیا ہے، جریان کا اضافہ نہیں کیا ہے ،مصنف نے یہ اضافہ ایک اشکال سے بچنے کے لیے کیا ہے کہ ان چار قسموں یعنی حقیقت ، مجاز ، صریح ، کنایہ میں تباین نہیں ہے بلکہ صریح اور کنایہ حقیقت کے ساتھ بھی جمع ہوجاتے ہیں اور مجاز کے ساتھ بھی ، یعنی حقیقت ِصریح ،حقیقت ِکنایہ اور مجازِ صریح ،مجازِ کنایہ ،حالانکہ ایک تقسیم کے اقسام میں تباین ہونا چاہیے،اقسام آپس میں جمع نہ ہونی چاہئیں،تو اس اشکال سے بچنے کے لئے،استعمال اور جریان دو لفظ استعمال کئے ،اور فرمایا کہ یہ چار اقسام ایک تقسیم کی نہیں ہیں،بلکہ دو تقسیم کی ہیں،ایک استعمالِ لفظ کی تقسیم ہے جس کی دو قسمیں حقیقت ومجاز ہیں اور