ماقبل والے کلام کو بدل دیا، کیونکہ اگر تعلیق نہ ہوتی تو فوراً طلاق پڑجاتی مگر تعلیق سے طلاق دخول دار تک مؤخر ہوگئی۔
استثناء کی مثال جیسے ’’لفلان علی الف درھم الامائۃ‘‘، میں صدر کلام میں ایک ہزار کا اقرار ہے مگر ’’الامائۃ‘‘ سے نوسو کا اقرار باقی رہا تو ’’الامائۃ‘‘ نے صدر کلام کو بدل دیا، پس تعلیق اور استثناء دونوں بیانِ تغییر ہوئے، اور بیانِ تغییر وصل کی شرط کے ساتھ صحیح ہے، کیونکہ شرط اور استثناء کلام ِغیر مستقل ہیں، اپنے ماقبل سے ملے بغیر ِمفید ِمعنی نہیں ہیں، لہٰذا متصلاً ہونا ضروری ہیں، یہی جمہور کا مذہب ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے نزدیک تعلیق اور استثناء میں وصل شرط نہیں ہے، بغیر وصل کے بھی صحیح ہے، ان کی دلیل حضورﷺ کایہ ارشاد ہے لاغزون قریشا میں قریش سے ضرور لڑونگا پھر ایک سال کے بعد آپ ﷺنے ان شاء اللہ کہا، یہ دلیل ہے کہ مفصولاً بھی درست ہے۔
جمہور کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص کسی چیز کی قسم کھائے پھر اس کے علاوہ کو بہتر سمجھے تو کفارہ دے دے اور وہ بہتر کام کرے، آپ ﷺنے قسم سے نکلنے کے لئے کفارہ متعین کیا، ورنہ آپ یوں کہتے کہ ان شاء اللہ کہہ دے، معلوم ہوا کہ مفصولا درست نہیں ہے۔
نیز اگر مفصولاً صحیح قرار دیں گے تو بہت سارے معاملات باطل ہوجائیں گے، آدمی ان شاء اللہ جب چاہے کہہ دے گا تو عقد ہی باطل ہوجائے گا۔
واختلف فی خصوص العموم:-مصنف کہتے ہیں کہ جس عام میں پہلی بار تخصیص ہورہی ہو تو اس میں اختلاف ہے، ہمارے نزدیک یہ تخصیص موصولاً درست ہے مفصولاً درست نہیں ہے، اور امام شافعی کے نزدیک مفصولاً بھی صحیح ہے۔
یہ اختلاف درحقیقت ایک دوسرے اختلافی مسئلہ پر مبنی ہے کہ عام تخصیص سے پہلے قطعی ہوتا ہے یا ظنی؟ تو ہمارے نزدیک عام تخصیص سے پہلے بالکل اسی طرح قطعی رہتا ہے جس طرح خاص قطعی ہوتا ہے، اور تخصیص کے بعد عام ظنی ہوجاتا ہے اور امام شافعی کے نزدیک عام تخصیص سے پہلے بھی ظنی ہوتا ہے جیسے تخصیص کے بعد ظنی ہوتا ہے، تو ہمارے نزدیک تخصیص بیانِ تغییر ہوگی، کیونکہ تخصیص سے عام قطعیت سے ظنیت کی طرف بدل جائے گا، اور بیانِ تغییر میں وصل ضروری ہے، اس لئے ہم نے کہا موصولاً ہونا ضروری ہے، اور امام شافعی کے نزدیک تخصیص بیانِ تغییر نہ ہوگی بلکہ بیانِ تقریر ہوگی، کیونکہ ان کے نزدیک عام تخصیص سے پہلے بھی ظنی ہوتا ہے اور تخصیص کے بعد بھی، تو تخصیص سے کلام میں تبدیلی نہیں ہوئی، لہٰذا تخصیص بیانِ تغییر نہ ہوگی بلکہ بیانِ تقریر ہوگی، اور بیان ِتقریر میں موصولاً اور مفصولاً دونوں طرح درست ہے۔