کر کہ وہ از سر نو روزہ رکھے گا ، اور اگر اس نے عورت سے جماع کیا اطعام کے درمیان تو استیناف نہیں کرے گا ، اس لیے کہ جماع سے خالی کرنے کی شرط جماع پر (کفارہ کو ) مقدم کرنے کی شرط کی ضرورت میں سے ہے ، اور تقدیم منصوص علیہ ہے اعتاق اور صیام میں نہ کہ اطعام میں۔
------------------------------
تشریح:-ہمارے نزدیک اگر مطلق اور مقید پر الگ الگ عمل کرناممکن ہوتو مطلق کو مقید پر محمول نہیں کرینگے ،چاہے ایک ہی واقعہ ہویا الگ الگ ،مگر حکم دو ہوں جن پر الگ الگ عمل ممکن ہو،تومطلق اپنے طلاق پر رہے گا،کیونکہ دو حکموں میں ایک کو مطلق اور دوسرے کو مقید کرنے میںشارع کی حکمتیں وابستہ ہوتی ہیں،جومطلق کو مقید پر محمول کرنے سے فوت ہوجاتی ہیں ،جیسے حکم کو مقید کرکے سختی کرنااور حکم کو مطلق رکھ کے نرمی کرنا وغیرہ لہٰذا جب دونوں پر اپنے اپنے طور سے عمل ممکن ہو تو مطلق کو مقید پر محمول نہیں کرینگے ۔
مصنفؒ طرفین کے حوالہ سے مثال ذکر کرتے ہیں کہ اگر ظہار کرنے والے نے روزوں سے کفارہ ادا کرنے کے دوران بیوی سے جماع کرلیا تو اس کو ازسر نو روزے رکھنا ضروری ہوگا،کیونکہ من قبل ان یتماسا کی قید لگی ہوئی ہے،اور اگر اطعام سے کفارہ ادا کررہا ہے اور کچھ مسکینوں کو کھلانے کے بعد بیوی سے جماع کرلیا ،تو استیناف نہیں کرے گا یعنی ازسر نو سب کو کھانا نہیں کھلانا پڑے گا ،کیونکہ اطعام میں من قبل ان یتماسا کی قید نہیں ہے ،تو دیکھئے واقعہ ایک ہی ہے یعنی ظہار مگر حکم الگ الگ ہیں کیونکہ کفارہ ٔ ظہار میں تین حکم ہیں (۱)اعتاق (۲)صیام (۳)اطعام - پہلے دو میں من قبل ان یتماسا کی قید ہے اور تیسرے میں نہیں ہے ،لہٰذا مطلق کو مقید پر محمول نہیں کرینگے ،کیونکہ مطلق کو مطلق رکھ کر اور مقید کو مقید رکھ کر عمل ممکن ہے۔
لان شرط الاخلاء- سے مصنف دلیل بیان کررہے ہیں کہ من قبل ان یتماسا کہہ کر کفارہ کو جماع پر مقدم کرنا شرط قرار دیا اور جب جماع پر کفارہ مقدم ہوا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کفارہ جماع سے خالی ہو ،کیونکہ اگر کفارہ جماع سے خالی نہ ہوگا تو وہ جماع پر مقدم نہ ہوسکے گا کیونکہ بیچ میں جماع ہوگیا پس کفارہ کو جماع پر مقدم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماع سے خالی ہو__ اور یہ مقدم کرنا منصوص ہے۔ اعتاق اور صیام میں،نہ کہ اطعام میں ،لہٰذا صیام میں اگر دوران میں جماع ہوگیا تو استیناف کرنا پڑے گا کیونکہ تقدیم فوت ہورہی ہے اور اطعام میں اگر دوران میں جماع ہوا تو استیناف نہ ہوگا کیونکہ یہاں حکم مطلق ہے تقدیم کی شرط نہیں ہے ۔
فائدہ:-عبارت میں لیلاً کے بعد عامداً کی قید اتفاقی ہے کیونکہ رات میں عمداً جماع کرنا اور ناسیا دونوں برابر ہیں ، اور نہاراً کے بعد ناسیاً کی قید احترازی ہے کیونکہ عمداً اگر کرلیا تو تتابع صیام فوت ہونے کی وجہ سے بالاتفاق استیناف واجب ہوگا ۔