نماز روزہ ، زکوۃ وغیرہ کیونکہ ان کی غرض ثوابِ آخرت ہے اورکافر اس کا اہل نہیں ہے ،لہٰذا جب ان عبادات کی غرض یعنی ثوابِ آخرت معدوم ہوگیا تو کافر سے ان کا وجوب بھی ساقط ہوجائے گا،ہاں جو احکامات عبادت کے قبیل سے نہ ہوں جیسے جزیہ خراج وغیرہ تویہ احکامات کا فر پر واجب ہوں گے ،کیونکہ ان کا مقصودثواب آخرت نہیں ہے ،۔
یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ کافر جب ثواب کا اہل نہیں ہے، تو اس پر ایمان بھی واجب نہ ہونا چاہیے تو مصنف اس کا ازالہ کرتے ہوئے،فرماتے ہیں کہ نہیں!بلکہ ایمان تو اس پر واجب ہوگا کیونکہ وہ اداء ایمان کا اہل ہے اور حکمِ ایمان یعنی ثواب کے ثبوت کا بھی اہل ہے یعنی اس کے ایمان لانے پر ثواب ِآخرت ہوگا تو ایمان کی غرض فوت نہ ہوگی لہٰذا ایمان اس پر واجب ہوگا ۔
ولم یجب علی الصبی :-اسی اصول پر دوسری تفریع ہے کہ بچہ جب غیر عاقل ہوتو اس پر ایمان واجب نہیں ہے،کیونکہ نفسِ وجوبِ ایمان کی غرض بالاختیار ادائِ ایمان ہے ،اور عدم عقل کی وجہ سے بچہ ادائِ ایمان سے قاصرہے، لہٰذا نفسِ وجوب بھی نہ ہوگا ،اور اگر یہ بچہ بالغ ہوگیا اور ادائِ ایمان کا متحمل ہوگیا تو اس پر اصلِ ایمان اور نفسِ ایمان واجب ہے ،البتہ ادائِ ایمان واجب نہیں ہے ،چونکہ یہ بچہ بوجہ عقل کے ادائِ ایمان پر قادر ہے اور یہی غرض ہے نفس وجوب کی ،لہٰذا نفس وجوب ایمان ثابت ہوجائے گا کیونکہ اس کی غرض بالاختیار ادائِ ایمان پر بچہ قادر ہے ،البتہ ادائِ ایمان اس پر واجب نہیں ہوگا کیونکہ ادائِ ایمان واجب ہوتا ہے کمالِ عقل اور بلوغ کے بعد،لہٰذا بلوغ سے پہلے اس پر ایمان کا ادا کرنا واجب نہیں ہے__ لیکن اس نابالغ نے باوجود ادائِ ایمان کا مکلف نہ ہونے کے اگر ایمان اداکرلیا یعنی ایمان لے آیا تو اس کا یہ ادائِ ایمان صحیح اور معتبر ہے،یہ فرض ہی واقع ہوگا ،لہٰذا بالغ ہونے کے بعد دوبارہ اس پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے،کیونکہ ایمان میں فرض ونفل کی تقسیم نہیں ہے،لہٰذا یہ فرض ہی ہوگا ،ایسا نہ ہوگا کہ ابھی نابالغ ہونے کی وجہ سے اس کا ایمان نفل ہوگا ، پھر بالغ ہونے کے بعد دوبارہ ایمان لانا ضروری ہے ، جو فرض ہے، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے مسافر پر جمعہ واجب نہیںہے، مگر اس کے باوجود اگر وہ جمعہ اداکرے تو فرض ہی واقع ہوگا ،اسی طرح اس نابالغ بچہ پر ادائِ ایمان واجب نہیں ہے مگر وہ ایمان لے آیا تو فرض ہی واقع ہوگا۔
وَاَمَّا اَھْلِیَّۃُ الْاَدَاءِ فَنَوْعَانِ قَاصِرٌ وَکَامِلٌ اَمَّا الْقَاصِرَۃُ فَتَثْبُتُ بِقُدْرَۃِ الْبَدَنِ اِذَا کَانَتْ قَاصِرَۃً قَبْلَ الْبُلُوْغِ وَکَذٰلِکَ بَعْدَ الْبُلُوْغِ فِیْمَنْ کَانَ مَعْتُوْھًا لِاَنَّہٗ بِمَنْزِلَۃِ الصَّبِیِّ لِاَنَّہٗ عَاقِلٌ لَمْ یَعْتَدِل عَقْلُہٗ وَتَبْنِی عَلَی الْاَھْلِیَّۃِ الْقَاصِرَۃِ صِحَّۃُ الْاَدَاءِ وَعَلٰی الْاَھْلِیَّۃِ الْکَامِلَۃِ وُجُوْبُ الْاَدَاءِ وَتَوَجُّہُ الْخِطَابِ عَلَیْہِ وَعَلٰی ھٰذَا قُلْنَا اَنَّہٗ