امام شافعیؒ کی دلیل یہ ہے کہ قول قصد واختیار سے صحیح ہوتا ہے کیوںکہ انسان کی زبان کی بات اس کے دل کی ترجمان ہوتی ہے ، لہٰذاجہاں قصد واختیار نہ ہوگاوہاں اس کا قول دل کی بات کا ترجمان نہ ہوگا، پس اس کا قول باطل ہوگا،جیسے نائم،صبی،یامجنون کا قول باطل ہوتا ہے ،کیونکہ ان کا قول قصدو اختیار سے نہیں ہوتا ہے،اسی طرح مکرَہ بھی قصد واختیار سے نہیں بولتا ہے ،بلکہ خوف وڈر سے اور جان بچانے کے لئے بو لتاہے،تومُکرَہ کا قول بھی باطل ہوگا۔
والاکراہ بالحبس:-امام شافعیؒ کے نزدیک عمر قید کے ساتھ اکراہ کرنا ایسا ہے جیسا کہ قتل کی دھمکی دیکر اکراہ کرنا، یعنی جیسے قتل کی دھمکی سے اکراہ کرنے میں مکرَہ کے قولی تصرفات باطل ہیں، ایسے ہی عمر قید کے ذریعہ اکراہ کرنے میں بھی مکرَہ کے قولی تصرفات باطل ہوں گے۔
واذا وقع الاکراہ علی الفعل:-مصنفؒ کہتے ہیںکہ جب اکراہِ کامل کسی فعل پر واقع ہو،چاہے اس فعل کی نسبت مکرِہ کی طرف ممکن ہویا نہ ہو،تو اس فعل کا حکم فاعل یعنی مکرَہ سے ساقط ہوجائے گا، یعنی مکرَہ پر مؤاخذہ نہ ہوگا ۔
اور اکراہ کا کامل ہونا یہ ہے کہ شریعت اکراہ کو ایسا عذر قرار دے جو مکرَہ کے لئے فعل کو مباح کردے،یعنی شریعت اس فعل کو مباح کردے تو یہ دلیل ہے کہ اکراہِ کامل ہے، اور باوجود اکراہ کے وہ فعل شریعت مباح نہ قرار دے تو یہ اکراہ کامل نہ ہوگا، لہٰذا یہ فعل مکرَہ سے ساقط نہ ہوگا، جیسے کسی کامال تلف کرنے پر اکراہ کیا گیا تو مکرَہ کے لئے مال تلف کرنا مباح ہوجاتا ہے ، اور اگر زنا پر یا کسی کے قتل پر اکراہ ہوا تو زنا اور قتل مکرَہ کے لئے شرعاً مباح نہ ہوگا، بہر حال امام شافعیؒ کے نزدیک اگر اکراہ کامل ہوا تو مکرَہ سے وہ فعل ساقط ہوجائے گا، اب اگر فعل کو مکرِہ کی طرف منسوب کرنا ممکن ہو،تو اس فعل کو مکرِہ کی طرف منسوب کردیا جائے گا ،اور مکرِہ ماخوذ ہوگا ،اور مکرَہ صرف آلہ سمجھاجائے گا،__اور اگر اس فعل کو مکرِہ کی طرف منسوب کرناممکن نہ ہو تویہ فعل بالکلیہ باطل ہوجائے گا،اور کسی سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔
مصنفؒ فرماتے ہیں کہ ہم بابِ اکراہ میں یہ اصول بیان کرچکے ہیںکہ اکراہ اختیار کو بالکلیہ معدوم نہیں کرتا ہے ، البتہ رضا منتفی ہوجاتی ہے ،اکراہ چاہے کامل ہویا قاصر،اور اکراہِ قاصر سے اختیار میں قدرے فساد آجاتا ہے،اور اگر اکراہ کامل ہوتو اختیارِفاسد ہوجاتا ہے،اور اختیارِ فاسد پر احناف کے نزدیک احکام مرتب ہوتے ہیں،ایسا نہیںہے جیسا کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ مکرَہ کے قولی تصرفات باطل ہوجاتے ہیں۔
وَالَّذِیْ یَقَعُ بِہٖ خَتْمُ الْکِتَاب بَابُ حُرُوفِ الْمَعَانِیْ
فَشَطْرٌ مِنْ مَسَائِلِ الْفِقْہِ مَبْنِیٌّ عَلَیْھَا وَاَکْثَرُھَا وُقُوْعًا حُرُوْفُ الْعَطْفِ وَالْاَصْلُ