------------------------------
تشریح:-مصنفؒ حروف ِعاطفہ کے بعد حروف جر کو بیان کررہے ہیں،حروف ِجارہ میں ایک حرف ’’باء‘‘ہے، جو الصاق کے لئے آتا ہے، جیسے مدرت بذید میں مَرَرْتُ ملصق بہ ہے، اور زید ملصق ہے، اس میں الصاق مجازاً ہے اور ’’بہ دائٌ‘‘ اس میں الصاق حقیقۃً ہے۔
مصنف مثال بیان کررہے ہیں کہ اگر کسی نے کہا ’’ان اخبرتنی بقدوم فلان فعبدی حر‘‘مخاطب نے فلاں کے آنے کی خبردی، تو اگر یہ خبر سچی ہے تو قائل حانث ہوجائے گا، ورنہ نہیں، کیونکہ باء الصاق کے لئے ہے ،تو مطلب یہ ہوگا ان اخبرتنی خبرا ملصقا بقدوم فلان، اگر تو نے مجھے ایسی خبردی جو ملصق ہو فلاں کے قدوم سے، اور خبرقدوم کے ساتھ اسی وقت ملصق ہوگی جب خبر سچی ہو، لہٰذا اس کا کلام سچی خبر پرمحمول ہوگا۔
وعلی للالزام:-حروف ِجارہ میں ایک حرف علی ہے ،جو الزام کے لئے آتا ہے، جیسے’’لَہٗ عَلَیَّ اَلْفٌ‘‘ اس کے میرے ذمہ ایک ہزار روپئے ہیں یعنی میرے اوپر لازم ہے،علی کی اصلِ وضع الزام کے لئے نہیں ہے ،بلکہ استعلاء کے لیے ہے ، پھر استعلاء کبھی حقیقۃ ً ہوتا ہے جیسے ’’زید علی السطح‘‘ زید چھت پر ہے،حقیقت میں بلندی پرہے،اور کبھی استعلائِ حکماً ہوتا ہے جیسے لہ عَلَیَّ اَلْفٌ۔
علی کبھی مجازاً شرط کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’یبا یعنک علی ان لایشرکن باﷲ شیئا‘‘وہ عورتیں آپ سے بیعت کریں اس شرط پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، حقیقی اور مجازی معنی میں مناسبت یہ ہے کہ علی الزام کے لئے آتا ہے،اور جزاء میں بھی الزامِ شرط ہوتا ہے،یعنی وجود جزاء کے لئے شرط لازم ہے۔
اور علی کبھی مجازاً معاوضاتِ محضہ میں باء کے معنی میں استعمال ہوتا ہے،معاوضات محضہ اس کو کہتے ہیںجس میں عوض اصلی ہو،کبھی جدا نہ ہوجیسے بیع ،اجارہ،نکاح وغیرہ ،معاوضاتِ محضہ کہہ کر معاوضاتِ غیر محضہ کو خارج کردیا جیسے طلاق بالمال، عتاق بالمال وغیرہ۔
بہرحال معاوضہ میں علی باء کے معنی میں مجازاً استعمال ہوتا ہے جیسے بعت علی کذا،نکحت علی کذا یعنی بکذا،مناسبت یہ ہے کہ باء الصاق کے لئے ہے،اور علی الزام کے لئے ہے اور الصاق والزام میں مناسبت ہے کیونکہ جب ایک چیز دوسری چیز کے لئے لازم ہوگی تو وہ ملصق بھی ہوگی،لزوم کے ساتھ الصاق ضرور ہوگا،لہٰذا علی کو باء کے معنی میں لے سکتے ہیں۔
وَمِنْ لِلتَّبْعَیْضِ وَلِھٰذَا قَالَ اَبُوْ حَنِیْفَۃَؒ فِیْمَنِ قَالَ اَعْتِقْ مِنْ عَبِیْدِیْ مَنْ