طَالِقٌ ،اس کو طلاقِ تعلیق کہتے ہیں ،اور ایک ہے طلاق ِتنجیز یعنی بغیر معلق کئے شوہر دے جیسے کہے اَنْتِ طَالِقٌ ،اس کو طلاقِ تنجیز کہتے ہیں یہ دونوں طلاق کے سبب ہیں ۔
اب نظیر سمجھئے ،مصنف ؒ کہتے ہیں کہ تعلیق بالشرط میں حکم کا عدم ،شرط کے عدم سے نہیں ہوتاہے، بلکہ سبب کے عدم سے ہوتا ہے جس کو آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں ،پس تعلیق کی صورت میں حکم معدوم ہوتا ہے ، تو وہ حکم اپنے وجود سے پہلے اور تعلیق کے بعد دونوں احتمال رکھتا ہے یعنی معلق بالشرط ہونے کا بھی احتمال ہے اور مرسل یعنی مطلق عن الشرط ہونے کا بھی احتمال ہے ،لہٰذا اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا ان دخلت الدار فانت طالق ،تو اس میں تعلیق اور ارسال دونوں احتمال ہیں،یعنی یہ بھی احتمال ہے کہ طلاق دخول دار کے وقت پائی جائے اس سے پہلے نہ پائی جائے اور ارسال کا بھی احتمال ہے یعنی یہ کہ دخول دار سے پہلے شوہر تنجیزاً طلاق واقع کردے ،تو ایک ہی حکم میں ارسال اور تعلیق دونوں کا احتمال ہے ،کیونکہ حکم کے وجود سے پہلے تعلیق اور ارسال دونوں احتمال ہونے میں کوئی منافات نہیں ،ہاں حکم کے وجود کے وقت تعلیق اور ارسال دونوں میں ضرور منافات ہے ،یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک حکم ارسال سے بھی ثابت ہو اور تعلیق سے بھی ثابت ہو بلکہ حکم یعنی وقوع طلاق ایک ہی سے ثابت ہوگا یا تو تعلیق سے یا ارسال سے __ لیکن وجود حکم سے پہلے دونوں احتمال ہوسکتے ہیں ، __کیونکہ وجود حکم سے پہلے وہ حکم شرط کے ساتھ معلق ہے اور شرط کے ساتھ معلق ہے تو بدون شرط کے وہ حکم معدوم ہی ہے ، عدم اصلی کی طرح ہے ،یعنی حکم معدوم ہے جس میں یہ بھی احتمال ہے کہ شرط کے ساتھ معلق ہو ،اور مرسل ہونے کابھی احتمال ہے اس طور پر کہ تنجیزاً طلاق کا وقوع ہوجائے __اوروجہ اس کی یہ ہے کہ تعلیق سے پہلے حکم کا جو عدم اصلی ہے اس میں دونوں احتمال ہیں،تعلیق اور ارسال کا یعنی جیسے ابتداء ً شوہر کو دونوں اختیار ہیں کہ طلاق کومعلق کرکے دے یا تنجیزاً دے __اور یہ بات مسلم ہے کہ تعلیق کے بعد حکم کا عدم اصلی بدلتا نہیں ہے، بلکہ حکم معدوم ہی رہتا ہے جیسے تعلیق سے پہلے تھا،تو جب تعلیق کے بعد عدم اصلی بدلتا نہیں ہے، تو جس طرح تعلیق سے پہلے یعنی عدمِ اصلی کی صورت میں حکم کے پائے جانے میں دونوں احتمال ہیں یعنی تعلیق اور ارسال کا __تو اسی طرح تعلیق کے بعد بھی حکم کے پائے جانے میں دونوں احتمال رہیں گے __پس جس طرح حکم واحد اپنے وجود سے پہلے اور تعلیق کے بعد ارسال اور تعلیق دونوں طرح سے ثابت ہونے کا احتمال رکھتا ہے اور اس میں کوئی منافات نہیں ہے، بلکہ حکم علی سبیل البدلیت دونوں سے ثابت ہوجائے گا __تو اسی طرح مطلق اور مقید میں بھی کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ دونوں سبب ہیں تو حکم علی سبیل البدلیت دونوں سے ثابت ہوجائے گا ،یہ ہوئی نظیر ۔
وَمِنْھَا مَاقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّ الْعَامَّ یَخُصُّ بِسَبَبِہٖ وَعِنْدَنَا اِنَّمَا یَخُصُّ بِسَبَبِہٖ اِذْالَمْ