یَکُنْ مُسْتَقِلاً بِنَفْسِہٖ کَقَوْلِہٖ نَعَمْ اَوْبَلٰی اَوْخَرَجَ مُخْرَجَ الْجَزَاءِ کَقَوْلِ الرَّاوی سَھَارَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہَ وَسَلَّمَ فَسَجَدَ اَوْخَرَجَ مُخْرَجَ الْجَوَابَ کَالْمُدْعُّوِ اِلَی الْغَدَاءِ وَیَقُوْلُ وَاللہِ لاَاَتَغَدّٰی فَاَمَّا اِذَازادَعَلٰی قَدْرِ الْجَوَابِ فَقَالَ وَاللہِ لَااَتَغَدَّی الْیَوْمَ وَھُوَ مَوْضِعُ الْخِلَافِ فَعِنْدَنَا یَصِیْرُ مُبْتَدِأً اِحْتَرَازًا عَنْ أِلْغَاءِ الزِّیَادَۃِ
ترجمہ:-اور ان وجوہ فاسدہ میں سے ایک وہ ہے جو بعض حضرات نے کہا کہ عام اپنے سبب کے ساتھ خاص ہوتا ہے اور ہمارے نزدیک عام اپنے سبب کے ساتھ خاص ہوتا ہے، جب کہ وہ عام اپنی ذات سے مستقل نہ ہو جیسے اس کا قول نعم یا بلٰی،یا عام جزاء کی جگہ پر ہو جیسے راوی کا قول سھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فسجد کہ آنحضرت ﷺ سے سہو ہوا پس آپ ﷺنے سجدہ کیا ،یا وہ عام جواب کے قائم مقام ہو جیسے وہ شخص جس کو ناشتہ کی طرف بلایا گیا ہو اور وہ کہے واللہ میں ناشتہ نہیں کروں گا ،پس بہر حال اس نے زیادتی کردی جواب کی مقدار پر چنانچہ اس نے کہا واللہ میں آج ناشتہ نہیں کروں گا ،تو یہ اختلاف کا مقام ہے پس ہمارے نزدیک وہ ازسرنو کلام کرنے والا ہوگا زیادتی کو لغو ہونے سے بچانے کے لئے ۔
------------------------------
تشریح:-چوتھی وجہ فاسد جس کے قائل امام شافعی ،امام مالک،امام مزنی اور ابوبکر دقاق وغیرہ ہیں ،وہ یہ ہے کہ اگر عام صیغہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں کسی نص میں یا صحابی کے قول میں وارد ہو تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ وہ عام اپنے سبب ِ ورود کے ساتھ خاص ہوگا ،اس عام سے کسی دوسرے کے لئے حکم ثابت نہ ہوگا ،وہ سبب چاہے سائل کا سوال ہو یا کوئی واقعہ ہو ،جیسے حضورﷺکے سامنے کسی نے کوئی سوال کیا اور آپ ﷺنے عام صیغہ سے جواب دیا من فعل کذا فعلیہ کذا یا فلہ کذا یا حضور ﷺ کے زمانے میں کوئی واقعہ پیش آیا اور آپنے عام صیغہ سے کوئی بات ارشاد فرمائی، تو یہ حضرات فرماتے ہیں کہ وہ عام اس سائل کے ساتھ یا صاحب واقعہ کے ساتھ خاص ہوگا ،اس عام سے دوسروں پر حکم نہیں لگے گا ،دوسروں پر وہ حکم دوسری نص سے یا قیا س سے لگے گا __مگر جمہور اس کے خلاف ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ عام کا صیغہ جب کسی خاص سبب سے مقید ہو تو وہ عام اپنے عموم پر رہے گا ،سبب ِورود کے ساتھ خاص نہیں ہوگا ، اور صحابہ اور تابعین کے اجماع سے اس کے نظائر موجود ہیں ،جیسے آیت ظہار اوس ابن صامت کی بیوی خولہ کے بارے میں نازل ہوئی ، آیت ِلعان ہلال ابن امیہ کے بارے میں اور آیت ِقذف حضرت عائشہ کے بارے میں اور آیت ِسرقہ حضرت صفوا ن کی چادر کی چوری میں نازل ہوئی __ان سب جگہوں پر صحابہ نے عموم ِلفظ کا اعتبار کیا ہے