ہیں ،لہٰذا مطلق کو مطلق اور مقید کو مقید باقی رکھیںگے اور دونوں کو سبب کہیں گے ،ان دونوں میں جمع اور تطبیق کی یہی شکل ہے ۔
تنبیہ:-ہاں اگر ایک ہی واقعہ ہے اور حکم بھی ایک ہی ہو تو بالاتفاق مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا جیسے روزے کے کفارے میں ساٹھ روزے ہیں ،ایک روایت میں شھرین متتابعین ہے ،اور ایک روایت میں فقط شھرین ہے،تو چونکہ ایک ہی واقعہ ہے اور حکم بھی ایک ہی ہے یعنی روزے کا کفارہ تو مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا یعنی متتابعین کی قید روزوں میں ملحوظ رہے گی --اسی طرح کفارہ ٔیمین میں فصیام ثلثۃ ایام مطلق ہے تتابع کی قید نہیں ہے ،اور ابن مسعود کی قرأت میں فصیام ثلثۃ ایام متتابعاتٍ مقید ہے ،تو یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا کیونکہ یہاں حکم ایک ہی ہے یعنی روزہ ،اور ایک حکم دومتضاد وصفوں کو قبول نہیں کرتا ہے ،لہٰذا مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا ۔
وَھُوَنَظِیْرُ مَاسَبَقَ اَنَّ التَّعْلِیْقَ بِالشَّرْطِ لَایُوْجِبُ النَّفْیَ عِنْدَ عَدَمِہٖ فَصَارَالحُکْمُ الْوَاحِدُ قَبْلَ وُجُوْدِہٖ مُعَلَّقًا وَمُرْسَلاً لِأِنَّ الْأِرْسَالَ ھُوَالتَّعْلِیْقُ یَتَنَافِیَانَ وُجُوْدًا وَاَمَّا قَبْلَ وُجُوْدِہٖ فَھُوَ مُعَلَّقٌ بِالشَّرْط أِیْ مَعْدُوْمٌ یَتَعَلَّقُ وُجُوْدُہٗ بِالشَّرْطِ وَمُرْسَلٌ عَنِ الشَّرْطِ اَیْ مَعْدُوْمٌ مُحْتَمَلٌ لِلْوُجُوْدِ قَبْلَہٗ وَالْعَدَمُ الْأَصْلِیُّ کَانَ مُحْتَمَلاً لِلْوُجُوْدِ وَلَمْ یَتَبَدَّلِ الْعَدَمُ فَصَارَ مُحْتَمَلاً لِلْوُجُوْدِ بِطَرِیْقَیْنِ
ترجمہ:-اور یہ (مطلق کو مقید پر محمول نہ کرنا) نظیر ہے اس کی جو ما قبل میں گذرا کہ تعلیق بالشرط حکم کی نفی کو واجب نہیں کرتی ہے شرط کے نہ ہونے کے وقت ، تو ایک ہی حکم ہوجائے گا ، اپنے وجود سے پہلے معلق اور مرسل ، اس لئے کہ ارسال اور تعلیق دونوں وجود کے اعتبار سے متنافی ہیں ، اور بہر حال حکم کے وجود سے پہلے پس وہ معلق بالشرط ہے یعنی ایسا معدوم ہے جس کا وجود شرط سے متعلق ہے ، اور شرط سے مطلق ہے یعنی ایسا معدوم ہے جو شرط سے پہلے وجود کا محتمل ہے ،اور عدم اصلی وجود کا محتمل ہے اور عدم بدلے گا نہیں تو یہ دونوں طریقوں پر وجود کا محتمل ہوگا۔
------------------------------
تشریح:-سابق میں یہ بات آئی کہ سبب میں مطلق اور مقید وارد ہوں تو مطلق کو مقید پر محمول نہیں کرینگے بلکہ دونوں پر عمل کرینگے ،مصنفؒ اس کی نظیر پیش کررہے ہیں نظیر کو سمجھنے سے پہلے بطور تمہید یہ بات سمجھیں کہ طلاق دوطرح سے ہوتی ہے،ایک طلاق تعلیق ہے یعنی شوہر طلاق کو معلق کرکے دے جیسے کہے اِنْ دَخَلْتِ الدَّارَ فَاَنْتِ