مراد لیںگے ،جیسے لا یستوی الاعمی والبصیر ،لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ-اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے ہیں،جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہوسکتے ہیں،اس کلام کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کسی چیز میں برابر ی نہیں ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے،بلکہ بصر اور عدم بصر میں برابری نہیں ہے ، اس کے علاوہ بہت صفات میں مثل انسان ہونے میں ، ناطق ہونے میں وغیرہ برابری ہے، لہٰذا تمام اوصاف میں مساوات کی نفی سے کذب لازم آئے گا، اسی طرح جنتی اور جہنمی میں بھی بہت سی صفات میں برابری ہے ، لہٰذا تمام اوصاف میں مساوات کی نفی سے کذب لازم آئے گا ، اور اللہ کے کلام میں کذب محال ہے، لہٰذا مجازی معنی یعنی بعض صفات میں مساوات کی نفی مراد ہوگی۔
اسی طرح حدیث میں فرمایا انما الاعمال بالنیات،اعمال نیت سے ہوتے ہیں یعنی اعمال کا وجود نیتوں سے ہوتا ہے ، اوریہی حقیقی معنی ہیں،حالانکہ بغیر نیت کے بھی عمل ہوجاتے ہیں ، تو حقیقی معنی مراد لینے سے حدیث میں کذب لازم آتا ہے ، اس لیے کلام کو مجازی معنی کی طرف پھیر دیں گے ، اور مجازی معنی ہیںاعمال پر ثواب بغیر نیت کے نہیں ملتاہے ،عمل تو ہوجاتا ہے۔
دوسری جگہ: دلالت ِعادت کی وجہ سے یعنی لفظ جب بولا جاتا ہے تو عادۃً اور عرف میں اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ مجازی معنی مراد ہوتے ہیں،لہٰذا دلالت ِعادت کی وجہ سے حقیقی معنی متروک ہوں گے ،مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ دلالت کی وجہ سے حقیقی معنی اس وقت متروک ہوں گے، جب حقیقی معنی مستعمل نہ ہوں، ورنہ امام صاحب کے نزدیک مجاز کے مقابلہ میں حقیقت ِمستعملہ پر عمل اولی ہوگا ،جس کی تقریر سابق میں گذری ۔
اس کی مثال جیسے صلوۃ ،صوم،حج وغیرہ ارکان کہ صلوۃ کے حقیقی معنی دعا کے ہیں،مگر عادت اور عرف میں یہ معنی متروک ہیں ،اور اس کے مجازی معنی مراد ہوتے ہیں ،یعنی نماز ،ایسے ہی صوم کے حقیقی معنی رکنا ،مجازی معنی مخصوص عبادت ،حج کے معنی ارادہ کرنا،مجازی معنی مخصوص ارکان کے ساتھ زیارت بیت اللہ ،ایسے ہی جب کسی نے کہا اس درخت سے نہیں کھائے گا ،فلاں کے گھر میں قدم نہیں رکھے گا وغیرہ یہ سب مثالیں ہیں جن کی تفصیل گزرچکی ۔
تیسری جگہ: ایسے معنی کی دلالت کی وجہ سے جو متکلم کی طرف لوٹتے ہیں،یعنی متکلم میں ایسے معنی پیدا ہوجائیں جو حقیقی معنی چھوڑنے پر دلالت کرے اور محسوس ہوجائے کہ متکلم کا مقصد حقیقی معنی مراد لینا نہیں ہے تو اس وقت بھی حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جاتے ہیں،جیسے یمین فور یعنی غصہ کے وقت کھائی ہوئی قسم ،اس کو یمین فور اس لئے کہتے ہیں کہ جوشِ غضب میں یہ قسم ہوتی ہے، اس میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا ،جیسے میاں بیوی میں جھگڑا ہونے کے وقت بیوی گھر سے نکلنے لگی تو شوہر نے غصہ میں کہا -ان خرجت فانت طالق -اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ہے،یہ سن کر