چاہے مجاز متعارف ہو یا عمومِ مجازہو۔
مصنف ؒ نے لاشتمالہ علی حکم الحقیقۃ کہہ کر عموم ِمجاز کی ترجیح کو بیان کردیا ،مجاز متعارف کی ترجیح بیان نہیں ہوئی اگر اس کے بعد اما لغلبۃ استعمالہ بڑھادیتے تو مجاز متعارف کی ترجیح بھی واضح ہوجاتی ،یا صرف لغلبۃ استعمالہ کہتے تو بھی عموم مجاز اور مجاز متعارف دونوں کی ترجیح مفہوم ہوجاتی ،کیونکہ عموم مجاز اور مجاز متعارف دونوں کا استعمال حقیقت سے زیادہ ہے۔
ثُمَّ جُمْلَۃُ مَا تُتْرکُ بِہِ الْحَقِیْقَۃُ خَمْسَۃٌ قَدْ تُتْرَکُ بِدَلَالَۃِ مَحَلِّ الْکَلَامِ وَبِدَلَالَۃِ الْعَادَۃِ کَمَا ذَکَرْنَا وَبِدَلَالَۃِ مَعْنًی یَّرْجِعُ اِلَی الْمُتَکَلِّمِ کَمَافِیْ یَمِیْنِ الْفَوْرِ وَبِدَلَالَۃِ سِیَاقِ النَّظْمِ کَمَا فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْاِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظَّلِمِیْنَ نَارًا وَبِدَلَالَۃِ اللَّفْظِ فِیْ نَفْسِہٖ کَمَا اِذَاحَلَفَ لَایَاکُلُ لَحْمًافَاَکَلَ لَحْمَ السَّمَکِ لَمْ یَحْنَثْ وَکَذَااِذَا حَلَفَ لَایَاکُلُ فَاکِھَۃً فَاَکَلَ الْعِنَبَ لَمْ یَحْنَثْ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃِ لِقْصُوْرٍ فِی الْمَعْنَی الْمَطْلُوْبِ فِی الْاَوَّلِ وَزِیَادَہٍ فِی الثَّانِیْ
ترجمہ:-پھر وہ تمام مقامات جہاں حقیقی معنی چھوڑدئے جاتے ہیں پانچ ہیں،کبھی حقیقی معنی چھوڑدئے جاتے ہیں محل کلام کی دلالت کی وجہ سے اور عادت کی دلالت کی وجہ سے جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ،اور ایسے معنی کی دلالت کی وجہ سے جو متکلم کی طرف لوٹتے ہیں جیسا کہ یمین فور میں ،اور سیاق نظم کی دلالت کی وجہ سے جیسے اللہ تعالی کے اس فرمان میں’’ پس جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کرے ہم نے ظالموں کے لئے جہنم تیار کررکھی ہے اور لفظ کی اپنی ذات کے اعتبار سے دلالت کی وجہ سے جیسے کہ جب قسم کھائی کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا‘‘پس اس نے مچھلی کا گوشت کھایا تو حانث نہیں ہوگا،اور اسی طرح جب قسم کھائی میوہ نہیں کھائے گا، پس اس نے انگور کھالی تو حانث نہیں ہوگا امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک، معنی مطلوب میں کمی کی وجہ سے اول میں اور زیادتی کی وجہ سے ثانی میں ۔
------------------------------
تشریح:-یہاں مصنف ؒان مقامات کو بیان کررہے ہیں جہاں حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جاتے ہیں ،وہ پانچ جگہیں ہیں ۔
پہلی جگہ :محل کلام کی دلالت کی وجہ سے حقیقی معنی چھوڑدئے جاتے ہیں یعنی جس محل میں کلام واقع ہورہا ہے وہ محل حقیقی معنی قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتاہے ،حقیقی معنی مراد لینے سے یا تو کذب لازم آتا ہے یا اور کوئی وجہ سے محل حقیقی معنی کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، حالانکہ اس کا وقوع قرآن وحدیث میں ہے لہٰذاحقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی