شِئْتَ عِتْقَہٗ کَانَ لَہٗ اَنْ یَعْتِقَھُمْ اِلَّا وَاحِدًا بِخِلَافِ قَوْلِہٖ مَنْ شَاءَ لِاَنَّہٗ وَصَفَہٗ بِصِفَۃٍ عَامَّۃٍ فَاَسْقَطَ الْخُصُوْصَ وَاِلٰی لِاِنْتِھَاءِ الْغَایَۃِ وَفِیْ لِلظَّرْفِ وَیُفَرَّقُ بَیْنَ حَذْفِہٖ وَاِثْبَاتِہٖ فَقَوْلُہٗ اِنْ صُمْتُ الدَّھْرَ وَاقِعٌ عَلَی الْاَبَدِ وَفِی الدَّھْرِ عَلَی السَّاعَۃِ وَتُسْتَعَارُ لِلْمُقَارَنَۃِ فِیْ نَحْوِقَوْلِہٖ اَنْتِ طَالِقٌ فِی دُخُوْلِکِ الدَّارَ۔
ترجمہ:-اور مِنْ تبعیض کے لئے ہے،اسی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ نے کہا اس شخص کے بارے میں جس نے کہا ’’اعتق من عبیدی من شئت عتقہ‘‘میرے غلاموں میں سے جس کو تو آزاد کرنا چاہے ،آزاد کردے ،تو اس کے لئے سوائے ایک غلام کے تمام غلاموں کو آزاد کرنے کا اختیار ہوگا،برخلاف اس کے قول ’من شاء‘ کے،اس لئے کہ قائل نے اس کو صفتِ عامہ کے ساتھ متصف کیا ہے،تو عمومِ صفت خصوص کو ساقط کردیتا ہے۔
اور الی غایت کی انتہاء کے لئے ہے۔
اور فی ظرف کے لئے ہے اور فی کے حذف واثبات کے درمیان فرق کیا جاتا ہے،پس قائل کا قول اِنْ صُمْتَ الدَّھْرَ واقع ہوگاابد پر اور فی الدھرساعت پر،اور فی کو مستعار لیا جاتا ہے مقارنت کے لئے قائل کے قول’’انت طالق فی دخولک الدار‘‘جیسی مثالوں میں۔
------------------------------
تشریح :-کلمہ من کی اصل وضع کس معنی کے لئے ہے ،اس میں علماء کا اختلاف ہے،اکثر فقہاء کہتے ہیں کہ اس کی اصل وضع تبعیض کے لئے ہے،باقی سارے معانی مجازی ہیں،جمہوراہل لغت کہتے ہیں کہ من ابتدائے غایت کے ہے،اور بعض کہتے ہیں کہ تمام معانی میں مشترک ہے،مصنف پہلے قول کے قائل ہیں،اور اسی پر یہ مسئلہ متفرع کررہے ہیں کہ اگر کسی نے دوسرے سے کہا’’اعتق من عبیدی من شئت عتقہ‘‘میرے غلاموں میں سے جس کو آزاد کرنا چاہیے آزاد کردے،تو امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیںکہ ایک غلام چھوڑ کر باقی تمام غلاموں کو آزاد کرنے کا مخاطب کو اختیار ہے،اور دلیل یہ ہے کہ کلمۂ مِنْ عموم کے لئے ہے،اور مِنْ تبعیض کے لئے ہے،تو مَنْ اور مِنْ دونوں پر عمل کرنے کے لئے کلام کو بعض عام پر محمول کریں گے،چنانچہ مَنْ کے عموم کی وجہ سے مخاطب کو اختیار ہوگا کہ تمام غلاموں کو آزاد کردے ،مگر مِنْ کی وجہ سے یہ بھی ضروری ہوگا کہ کوئی ایک غلام کو چھوڑدے،آزاد نہ کرے،اور غلام متعین کرنے کا مولی کو اختیار ہوگا۔
اس کے برخلاف اگر من شئت کی جگہ مَنْ شَائَ کہا یعنی میرے غلاموں میں سے جو بھی آزادی چاہے تو اس کو آزاد کردے تو اس صورت میں اگرتمام غلاموں نے آزادی چاہی ،تو سب آزاد ہوجائیں گے،وجہ فرق یہ ہے کہ من شاء میں