مخاطب کا فعل ہے، جس میں حالف کو کوئی اختیار نہیں ہے،اس لئے یہی کیا جائے گاکہ حالف تو تغدی کے لئے آیا تو قسم پوری ہوگئی،حانث نہ ہوگا__ لیکن اگر دونوں فعل حالف کے ہوں جیسے ’’ان لم آتک حتی اتغدی عندک فعبدی حرٌ‘‘تو اس صورت میں قسم اتیان اور تغدی دونوں سے متعلق ہوگی،اور اس صورت میں حتی نہ غایت کے لئے ہوگا ،نہ لام کَیْ کے معنی میں سببیت کے لئے ہوگا،بلکہ حتی عطف بحرف الفاء کے لئے ہوگا،غایت کے لئے تو اس لئے نہیں ہوگا کہ کھانا کھلانا اتیان کے لئے غایت نہیں بن سکتا ہے،اور لام کَیْ کے معنی میں اس لئے نہیں ہوگا کہ اتیان اور تغدیہ دونوں ایک ہی شخص کے فعل ہیں،عادۃًایک شخص کا فعل خود اس کے فعل کے لئے سبب اور جزا نہیں بن سکتا، لہٰذا کھانا کھلانا اتیان کا سبب نہ ہوگا،تو حتی لامَ کَیْ کے معنی میں سببیت ومجازات کے لئے نہ ہوگا،بلکہ عطف بحرف الفاء کے لئے ہوگا،اور عطف کے لئے لینے میں مناسبت یہ ہے کہ حتی غایت کے لئے آتا ہے، اور غایت مغیا سے وجوداً مؤخر ہوتی ہے،اور حرفِ عطف فاتعقیب کے لئے آتا ہے، یعنی فاکامابعد اس کے ماقبل سے وجود میں مؤخر ہوتا ہے،تو غایت اور تعقیب کے معنی قریب قریب ہیں ۔
اب مطلب یہ ہوگا کہ اگر میں تیرے پاس نہ آیا پھر تیرے پاس کھانا نہ کھایا، تو میرا غلام آزاد ہے،تو آنا اور فوراً کھانا کھانا یہ دونوں قسم پورا ہونے کے لئے ضروری ہیں،چنانچہ حالف مخاطب کے پاس آیا پھر متصلاً کھانا بھی کھایا، تو قسم پوری ہوجائے گی،اور غلام آزاد نہ ہوگا،اور اگر حالف آیا ہی نہیں ،یا آیا مگر کھانا نہیں کھایا ،یا کچھ تاخیر سے کھانا کھایا، تو ان تمام صورتوں میں حانث ہوجائے گااور غلام آزاد ہوجائے گا۔
وَمِنْ ذٰلِکَ حُرُوْفُ الْجَرِّفَالْبَاءُ لِلْاِلْصَاقِ وَلِھٰذَا قُلْنَا فِیْ قَوْلِہٖ اِنْ اَخْبَرْتَنِیْ بِقُدُوْمِ فُلَانٍ اَنَّہٗ یَقَعُ عَلَی الصِّدْقِ وَعَلٰے لِلْاَلْزَامِ فِیْ قَوْلِہٖ عَلَیَّ اَلْفٌ وَتُسْتَعْمَلُ لِلشَّرْطِ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی یُبَا یِعْنَکَ عَلٰی اَنْ لَایُشْرِکْنَ بِاﷲِ شَیْئًا وَتُسْتَعَارُ بِمَعْنَی الْبَاءِ فِیْ الْمُعَاوَضَاتِ الْمَحْضَۃِ لِاَنَّ الْاِلْصَاقَ یُنَاسِبُ اللُّزُوُمَ۔
ترجمہ:-اور حروف معانی میں سے حروفِ جر ہیں،پس باء الصاق کے لئے ہے،اسی وجہ سے ہم نے کہا قائل کے قول ’’ان اخبر تنی بقدوم فلان‘‘میں کہ یہ کلام سچی خبر پر واقع ہوگا۔
اور علی الزام کے لئے ہے قائل کے قول’’علیَّ الفٌ‘‘میں اور شرط کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا یبایعنک اعلی ان لایشرکن باﷲ شیئا‘‘اور کلمۂ علی مستعار لیا جاتا ہے باء کے معنی میں معاوضاتِ محضہ میں ،اس لئے کہ الصاق لزوم کے مناسب ہے۔