(پس) وہ فلاں آیا رات میں یا دن میں تو غلام آزاد ہوجائے گا، اس لئے کہ یوم جب ملا ہواہو ایسے فعل کے ساتھ جس میں امتداد نہ ہوتو وہ محمول کیا جاتا ہے مطلق وقت پر ،پھر وقت اس میں رات اور دن دونوں داخل ہوجاتے ہیں ۔
------------------------------
تشریح:-مصنف ؒپہلے اعتراض کا جواب دے رہے ہیں کہ حضرت!ہم نے حقیقت ومجاز کو جمع نہیں کیا بلکہ عموم مجاز مراد لیا ہے یعنی مجازی معنی ایسے عام مراد لئے کہ حقیقی معنی بھی اس کا ایک فرد بن کر داخل ہوگیا ، پس وضع قدم یعنی قدم رکھنے سے عموم مجاز کے طریقہ پر دخول مراد لیا اور دخول میں حقیقی ومجازی دونوں معنی آگئے ،اب چاہے ننگے پیر داخل ہو ،جوتے پہن کر ،پیدل،سوارہوکر جس طرح بھی داخل ہوگا حانث ہوجائے گا۔
اسی طرح دار یعنی گھر کی جو نسبت کی گئی تو اس سے عموم مجاز کے طریقہ پر اس کا سکنی (اس کی رہائش )مراد ہے یعنی جس گھر میں وہ رہتا ہے،اب چاہے وہ ملکیت کا گھر ہویا کرایہ کا یا عاریت کا ،ہر صورت میں گھر میں داخل ہونے سے حانث ہوجائے گا ،اور عموم مجاز ہمارے نزدیک جائز ہے، تو خلاصہ یہ ہوا کہ اس میں حقیقت ومجاز کا جمع ہونا بطریق عمومِ مجاز ہے نہ کہ جمع بین الحقیقہ والمجاز کے قبیل سے ،لہٰذا اب آپ اعتراض نہیں کرسکتے ۔
اس کی نظیر سمجھو،کسی نے کہا کہ عبدی حر یوم یقدم فلان - جس دن فلاں آئے میرا غلام آزاد ہے ،تو یہاں یوم کے حقیقی معنی دن اور مجازی معنی رات ہے،تو دونوں میں سے کوئی ایک معنی مراد ہونا چاہیے، حالانکہ یہاں بھی دونوں معنی مراد ہیں،اس لئے وہ رات میں آئے، چاہے دن میں آئے، بہر صورت غلام آزاد ہوجائے گا --تو یہاں بھی وہی بات ہے کہ یوم سے بطریق عموم مجاز مطلق وقت مراد ہے ، کیونکہ یوم جب فعل ِ غیر ممتد سے ملا ہوا ہو یعنی ایسے فعل سے جسکی حد بندی نہ ہوسکے ،تو اس سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے ،یہاں قدوم فعل غیر ممتد ہے کیونکہ آنے کی حد بندی نہیں ہوسکتی، لہٰذا یہاں مطلق وقت مراد ہے ،اور جب مطلق وقت مراد لیا تو اس میں رات اور دن دونوں داخل ہوگئے ،تو دن اور رات دونوں کا جمع ہونا عموم ِمجاز کے طریقہ پر ہوا ،نہ یہ کہ حقیقت ومجاز کو جمع کیا گیا ۔
وَاَمَّا مَسْئَلَۃُ النَّذْرِ فَلَیْسَ بِجَمْعٍ اَیْضًابَلْ ھُوَ نَذْرٌ بِصِیْغَتِہٖ یَمِیْنٌ بِمُوْجَبِہٖ وَھُوَ الْاِیْجَابُُ لِاَنَّ اِیْجَابَ الْمُبَاحِ یَصْلُحُ یَمِیْنًا کَتَحْرِیْمِ الْمُبَاحِ وَھٰذَا کَشِرَاءِ الْقَرِیْبِ فَاِنَّہٗ تَمَلُّکٌ بِصِیْغَتِہِ تَحْرِیْرٌ بِمُوْجَبِہٖ
ترجمہ:-اور بہر حال نذر کا مسئلہ پس وہ بھی جمع (بین الحقیقہ والمجاز )نہیں ہے بلکہ یہ کلام نذر ہے اپنے صیغہ کے اعتبار سے اور یمین ہے اپنے حکم کے اعتبار سے اور وہ حکم ایجاب(واجب کرنا)ہے، اس لئے کہ مباح کو واجب کرنا یمین بن سکتا ہے، جیسے مباح کو حرام کرنا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے قریبی رشتہ دار کو خریدنا تملک (مالک بننا )ہے اپنے صیغہ