صَائِمًا وَھُوَ مُسَافِرٌ اَوْمُقِیْمٌ فَسَافَرَ لَایُبَاحُ لَہٗ الْفِطْرُ بِخِلَافِ الْمَرِیْضِ وَلَوْ اَفْطَرَ کَانَ قِیَامُ السَّفَرِ الْمُبِیْحِ شُبْھَۃً فِیْ اِیْجَابِ الْکَفَّارَۃِ وَلَوْاَفْطَرَ ثُمَّ سَافَرَ لَایَسْقُطُ عَنْہٗ الْکَفَّارَۃُ بِخِلَافِ مَااِذَا مَرِضَ لِمَاقُلْنَا۔
ترجمہ :-اور بہرحال خطا ،پس وہ ایسی قسم ہے جس کو ایسا عذر قرار دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ساقط ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ وہ اجتہاد سے حاصل ہو، اور جس کو عقوبت کو دور کرنے میں شبہ قرار دیا گیا ہے، یہاں تک کہ کہا گیا ہے کہ خاطی نہ گنہگار ہوگا اور نہ حد اور قصاص میں ماخوذ ہوگا، لیکن خطا تقصیر کی ایک ایسی قسم سے جدا نہیں ہے جو جزاء قاصر کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور وہ جزاء قاصر کفارہ ہے، اور ہمارے نزدیک خاطی کی طلاق صحیح ہے، اور ضروری ہے کہ خاطی کی بیع منعقد ہوجائے جیسے مُکْرَہ کی بیع۔
اور بہرحال سفر تو وہ تخفیف کے اسباب میں سے ہے، جو چار رکعت والی نماز کے قصر میں اور روزہ کی تاخیر میں مؤثر ہے ،لیکن جب کہ سفر اختیار کردہ امور میں سے ہے اور ایسی ضرورت کو واجب کرنے والا نہیں ہے جو لازم ہو،تو کہا گیا کہ مسافر نے جب صبح کی صائم ہونے کی حالت میں درانحالیکہ وہ مسافر ہے یا مقیم ہے، پس اس نے سفر کیا، تو اس کے لئے افطار جائز نہیں ہے برخلاف مریض کے ، اور اگر مسافر نے افطار کرلیا تو سفرِ مبیح کا قیام کفارہ واجب کرنے میں شبہ ہوگا، اور اگر مقیم نے افطار کیا پھر سفر کیا ،تو اس سے کفارہ ساقط نہ ہوگا، برخلاف اس صورت کے جب افطار کے بعد بیمار ہوگیا، اسی دلیل کی وجہ سے جو ہم نے بیان کی۔
------------------------------
تشریح :-عوارض مُکْتَسبَہ میں سے پانچواں عارض خطا ہے، خطالغت میں صواب اور درستی کی ضد ہے، اور اصطلاح میں بغیر قصدوارادہ کے کسی کام کے واقع ہونے کو خطا کہتے ہیں، جیسے کسی نے شکار سمجھ کر تیر مارا اور انسان کولگ گیا تو یہ خطا ہے، انسان کو مارنے کا اس کا قصد نہیں تھا، خطا پر اگرچہ عقلاً مؤاخذہ جائز ہے لیکن اگر اجتہاد اور کوشش کے بعد خطا واقع ہوتو اللہ کا حق ساقط ہونے میں اس کو عذرقرار دیا گیا ہے، لہٰذا خطاً اگر اللہ کا حق بندے نے تلف کردیا ،تو اس پر مؤاخذہ نہ ہوگا، پس اگر کسی نے پوری کوشش اور اجتہاد کے بعد جہتِ قبلہ میں خطا کی اور دوسری طرف رخ کرکے نماز پڑھ لی ،تو نماز صحیح ہوجائے گی۔
لیکن اجتہاد اور کوشش کے بعد بھی اگر حق العبد میں خطا ہو تو شرعاً عذر نہیں ہے، لہٰذا اگر کسی نے شکار سمجھ کر غیر کی بکری کی طرف تیر پھینکا، یاغیر کے مال کو اپنا مال سمجھ کر کھالیا تو اس پر ضمان لازم ہوگا__ اور بابِ عقوبت میں خطا کو شبہ قرار دیا گیا ہے یعنی جیسے شبہ سے حدود وقصاص دفع ہوجاتے ہیں، خطا سے بھی دفع ہوجاتے ہیں، حتی کہ خاطی نہ