تاکید کے لئے ہے۔
اب عبارت سمجھیں ،فرماتے ہیں کہ کسی عربی نے اپنے موالی کے لئے تہائی مال کی وصیت کی، تو یہاں موالی کے معنی مُعْتَقْ (آزاد کردہ غلام )ہے ،یہاں مُعْتِقْ مراد نہیں ہوسکتا ہے ، کیوں کہ عربوں میں غلامی نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا اس کا کوئی مُعْتِقْ نہیں ہوگا، تو یہاں مولی کا معنی مُعْتَقْ معین ہوگئے ، اب حقیقی معنی اس کا خود کا آزاد کردہ غلام ،اور مجازی معنی غلاموں کے غلام ،اور اس کا ایک ہی مُعْتَقْ ہے اور اس کے معتق کے معتق بہت ہیں ،لہٰذا اس کے حقیقی معنی اس کا خود کا مُعْتَقْ جب مراد لے لیا تو غلاموں کے غلام کے لئے وصیت نہیں ہوگی ،لہٰذا اس کے معتق کو ثلث کا آدھا دیکر باقی موصی کے وارثوں کو دے دیا جائے گا ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے موالی جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے اور اس کے کم سے کم تین فرد ہیں ،تو اس کو ثلث کا تیسرا حصہ دینا چاہیے نہ کہ آدھا فماالجواب
جواب یہ ہے کہ آپ کی بات بالکل صحیح ہے مگر میراث اور وصیت میں دو کو جمع کا حکم دیا جاتا ہے ،لہٰذا ایک جمع کا نصف شمار ہوگا، اس لئے اس کو ثلث کا آدھا ملے گا ۔
وَاِنَّمَا عَمَّھُمُ الاَمَانُ فِیْمَا اِذَااسْتَأمَنُوْا عَلٰی اَبْنَائِھِمْ وَمَوَالِیْھِمْ لِاَنَّ اِسْمَ الْاَنْبَاءَ وَالْمَوَالِیْ ظَاھِرًا یَتَنَاوَلُ الْفُرُوْعَ لٰکِنْ بَطَلَ الْعَمَلُ بِہٖ لِتَقَدُّمِ الْحَقِیْقَۃِ فَبَقِیَ مُجَرَّدُالْاِسْمِ شُبْھَۃً فِی حَقْنِ الدَّمِ وَصَارَ کَالْاِشَارَۃِ اِذَادَعابِھَا الْکَافِرَ اِلٰی نَفْسِہٖ یَثْبُتُ بِھَا الْاَمَانُ لِصُوْرَۃِ الْمُسَالَمَۃِ وَاِنْ لَمْ تَکُنْ ذٰلِکَ حَقِیْقَۃً
ترجمہ:-اور امان ان تمام کو عام ہوگا (یعنی بیٹوں اورپوتوں کو،موالی اور موالی کے موالی کو) اس صورت میں کہ جب اہل حرب نے امان طلب کیا اپنے بیٹوں اور موالی پر، اس لئے کہ ابناء اور موالی کا لفظ ظاہری طور پر فروع کو شامل ہے، لیکن اس پر عمل باطل ہوگیا حقیقت کے مقدم ہونے کی وجہ سے،تو باقی رہ گیا محض لفظ شبہ بن کر خون کی حفاظت میں،یہ ایسا ہوگیا جیسا کہ اشارہ ،جب اشارہ سے کافر کو اپنی طرف بلایا تو اس سے امان ثابت ہوجائے گا ،مصالحت کی صورت کی وجہ سے، اگرچہ یہ بلانا حقیقت میں مصالحت نہیں ہے ۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒایک سوال ِمقدر کا جواب دے رہے ہیں،سوال یہ ہے کہ حضرت !آپ نے تو یہ ضابطہ بیان کیا کہ ایک لفظ میں حقیقی اور مجازی دونوں معنی ایک ساتھ مراد نہیں لے سکتے ،یہاں تو حقیقت ومجاز جمع ہورہےہیں کہ جب اہل حرب نے مسلمانوں سے اس طرح امان طلب کیا آمنونا علی ابناء نا وموالینا کہ ہمیں ہمارے بیٹوں پر اور