ترجمہ:-حقیقت اور مجاز کا حکم ان دونوں کے اجتماع کا محال ہونا ہے ،مراد بن کر ایک ہی لفظ سے ،جیسا کہ محال ہے کہ ایک ہی کپڑا پہننے والے پر ملکیت کا اور عاریت کا ہو ایک ہی وقت میں ۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ حقیقت اور مجاز کا حکم بیان فرمارہے کہ ایک لفظ بول کر ایک ہی وقت میں اس کے حقیقی معنی بھی مراد لئے جائے اور اس کے مجازی معنی بھی مراد لئے جائے یہ محال ہے ،بلکہ ایک وقت میں یاتو لفظ کے حقیقی معنی مراد ہوں گے یا مجازی معنی ،دونوں معنی ایک وقت میں مراد لینا صحیح نہیں ہے ،جیسے ایک آدمی کے بدن پر کپڑا ہوتو وہ یا تو ملکیت کا ہوگا یا عاریت کا ،ایک ہی وقت میں ملکیت کا بھی ہواور عاریت کا بھی ہو،ایسا نہیں ہوسکتا ہے، پس حقیقی معنی مملوک کے مانند ہے اور مجازی معنی عاریت کے درجہ میں ہے۔
وَلِھٰذَ ا قَالَ مُحَمَّدٌ فِی الْجَامِع لَوْاَنَّ عَرَبِیَّا لَاوَلَاءَ عَلَیْہِ اَوْصٰی بِثُلُثِ مَالِہٖ لِمَوَالِیْہِ وَلَہٗ مُعْتَقٌ وَاحِدٌ فَاسْتَحَقَّ النِّصْفَ کَانَ النِّصْفُ الْبَاقِیْ مَرْدُوْدًا اِلَی الْوَرَثَۃِ وَلَا یَکُوْنُ لِمَوَالِیْ مَوْلَاہٗ لِاَنَّ الْحَقِیْقَۃَ اُرِیْدَتْ بِھٰذَا اللَّفْظِ فَبَطَلَ الْمَجَازُ
ترجمہ:-اسی وجہ سے امام محمد ؒنے جامع کبیر میں فرمایا کہ اگر کسی عربی نے جس پر ولا ء نہ ہو اپنے موالی کے لئے اپنے تہائی مال کی وصیت کی اور اس کا ایک ہی مُعْتَقْ (آزاد کیا ہوا غلام )ہے ،تو تہائی کے آدھے کا وہ مستحق ہوگا،اور تہائی کا باقی آدھا اس عربی کے وارثوں کی طرف لوٹا دیا جائے گا ،اور اس کے مولی کے موالی کے لئے نہیں ہوگا ،اس لئے کہ اس لفظ سے جب حقیقت مراد لے لی گئی تو مجاز باطل ہوگیا۔
------------------------------
تشریح:-جب حقیقت اور مجاز کا حکم معلوم ہوگیا کہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے تو مصنف ؒ اس پر ایک مسئلہ متفرع کررہے ہیں ۔
پہلے یہ سمجھ لیں کہ مولی کا لفظ معتِق (آزاد کرنے والا)اور مُعْتَقْ(آزاد شدہ )دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس لفظ کے حقیقی معنی ہے اس کا مُعْتِقْ اور مُعْتَقْ یعنی وہ شخص جس نے اس کو آزاد کیا ہے یا جس کو خود اس نے آزاد کیا ہے ، یہ تو حقیقی معنی ہوئے اور مُعتِق کا مُعْتِق یا مُعْتَق کا مُعْتَق مجازی معنی ہوئے ۔
دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ غلام کے مال میں آزاد کرنے والے کا جوحق ہوتا ہے ،غلام کے مرنے کے بعد وہ ولاء کہلاتا ہے۔
اور یہ بھی سمجھ لیں کہ عربی حرالاصل ہوتا ہے ،عربوں میں رقیت نہیں ہوتی ہے،کیونکہ عربوں میں دو ہی باتیں تھیں یا اسلام یا قتل،پس عرب میں غلامی نہیں ہوتی ہے، تو ولاء بھی نہیں ہوگی، لہٰذا مصنف کی عبارت میں عربیاکے بعد لَاوَلَائَ