لیے ،اور مجازی معنی عام ہے کیونکہ صاع پر ال استغراق کا ہے، تو صاع ان تمام چیزوں کو شامل ہوگا جو اس میں سماتی ہوں، چاہے وہ مطعوم ہو ںیا غیر مطعوم ،لہٰذا ہمارے نزدیک ربٰو مطعوم میں ہوگا اور غیر مطعوم جیسے چونا وغیرہ میں بھی ہوگاکیونکہ مجازی معنی عام ہے ۔
تو خلاصہ یہ ہوا کہ خاص وعام جیسے حقیقت میں ہوتا ہے، ایسے ہی مجاز میں ہوتا ہے اور دونوں جگہ اگر معنی موضوع لہ یا معنی غیر موضوع لہ میں خصوص ہے تو خاص مراد لیں گے اور اگر عموم ہے تو عام مراد لیں گے، اور خاص کے حکم میں تو امام شافعی ؒ بھی متفق ہیں، البتہ مجاز میں وہ عموم کا انکار کرتے ہیں،یعنی وہ مجاز کو خاص مانتے ہیں عام نہیں مانتے ،اسی لئے حدیث میں انہوں نے صاع سے عموم مراد نہیں لیا بلکہ صرف مطعوم مراد لیا،لہٰذا ان کے نزدیک ربٰو صرف مطعوم میں ہوگا، غیر مطعوم ایک صاع بھر کے دو صاع کے بدلے اگر کوئی بیچتا ہے تو ربٰو نہ ہوگا، بہر حال امام شافعیؒ مجاز میں عموم کے قائل نہیں ہیں۔
امام شافعی ؒ اس پر دلیل یہ دیتے ہیں کہ مجاز ضرورۃً ثابت ہوتا ہے ،اصل تو کلام میں حقیقت ہے یعنی لفظ کا موضوع لہ معنی مراد لینا، لیکن اگر کبھی حقیقی معنی مراد لینا مشکل ہورہا ہو تو کلام کو مجاز کی طرف پھیر دیا جاتا ہے، تاکہ لوگوں کے لئے آسانی پیدا ہوجائے ،پس جب مجاز ضرورۃً ثابت ہو اتو یہ اصول مسلم ہے کہ وہ بقدر ضرورت ہی رہے گا ،اور حدیث میں مطعوم مراد لینے سے یعنی خصوص مراد لینے سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے، لہٰذا خواہ مخواہ اس میں عموم روا نہیں رکھا جائے گا ۔
مصنفؒ اس کا جواب دیتے ہیں کہ حضرت امام شافعی ؒ کا مجاز کو ضرورۃً ثابت ماننا باطل ہے ،غلط ہے ،کیونکہ قرآن کریم میں مجاز کا کثرت سے استعمال ہے اور اللہ تعالی عجز اور ضرورت سے بالاتر ہیں ، پس حضرت امام کا یہ قول باطل ہوگیا ۔
قرآن میں مجاز کی مثال جیسے اِنَّا لَمَّا طَغَی الْمَا ءُ - یہاں طغی کے حقیقی معنی ظلم اور گناہوں میں حد سے بڑھنا ہے،مگر یہ معنی مرادنہیں ہے ،بلکہ مجازی معنی مراد ہے یعنی پانی کا بلند ہونا اور حد سے بڑھنا ،آیت طوفان نوح سے متعلق ہے __اسی طرح فَوَجَدَاَ فِیْھَا جِدَارًا یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ -یہاں یرید کے حقیقی معنی چاہنا اور ارادہ کرنا ،مگر یہ معنی مراد نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی نسبت دیوار کی طرف ہورہی ہے ،یہاں مجازی معنی یعنی مشارفت اور قریب ہونے کے معنی مراد ہے، یعنی دیوار گرنے کے قریب ہوگئی۔
وَمِنْ حُکْمِ الْحَقِیْقَۃِ وَالْمَجَازِ اسْتِحَالَۃُ اجْتِمَاعِھِمَا مُرَادَیْنِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ کَمَا اِسْتَحَالَ اَنْ یَّکُوْنَ الثَّوْبُ الْوَاحِدُ عَلَی اللَّابِسِ مِلْکًاوَعَارِیَۃً فِیْ زَمَانٍ وَاحِدٍ