صَحَّ مِنَ الصَّبِیِّ الْعَاقِلِ الْاِسْلَامُ وَمَا یَتَمَحَّضُ مَنْفَعَتُہٗ مِنَ التَّصَرُّفَاتِ کَقَبُوْلِ الْھِبَۃِ وَالصَّدَقَۃِ وَصَحَّ مِنْہُ اَدَاءُ الْعِبَادَاتِ الْبَدْنِیَّۃِ مِنْ غَیْرِ عُھْدَۃٍ وَمَلَکَ بِرَأیِ الْوَلِّیِ مَایَتَرَدَّدُبَیْنَ النَّفْعِ وَالضَّرَرِ کَالْبَیْعِ وَنَحْوِہٖ وَذٰلِکَ بِاِعْتِبَارِ اَنَّ نُقْصَانَ رَأیِہِ اِنْجَبَرَ بِرَأیِ الْوَلِیَ فَصَارَ کَالْبَالِغِ فِیْ ذٰلِکَ فِیْ قَوْلِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رَحِمَہُ اﷲُ اَلَاتَرٰی اَنَّہٗ صَحَّحَ بِیْعَہٗ مِنَ الْاَجَانِبِ بِغَبَنٍ فَاحِشٍ فِی رِوَایَۃٍخِلَافًا لِصَاحِبَیْہِ وَرَدَّہٗ مَعَ الْوَلِّیِ بِغَبَنٍ فَاحِشٍ فِیْ رِوَایَۃٍ اِعْتَبَارًا بَشُبْھَۃِ النِّیَابَۃِ فِی مَوْضِعِ التُّھْمَۃِ۔
ترجمہ:-اور بہرحال اہلیتِ اداپس اس کی دوقسمیں ہیں،قاصراور کامل ،بہرحال اہلیتِ قاصرہ پس وہ ثابت ہوجاتی ہے بدن کی قدرت سے ، جب کہ قدرت قاصرہ ہوبلوغ سے پہلے ،اور ایسے ہی بلوغ کے بعد اس شخص کے بارے میں جو معتوہ (سفیہ) ہو، اس لئے کہ یہ بچہ کے درجہ میں ہے ،اس لئے کہ وہ ایسا عاقل ہے جس کی عقل معتدل نہیں ہے ،اور اہلیتِ قاصرہ پر مبنی ہے صحتِ اداء، اور اہلیتِ کاملہ پر مبنی ہے وجوبِ ادا، اور اس پر خطاب کا متوجہ ہونا، اور اسی بنیاد پر ہم نے کہا کہ صبیٔ عاقل کا اسلام درست ہے اور جو تصرفات اس کے نفع کے ہیں جیسے ہبہ قبول کرنا اور صدقہ قبول کرنا ،اور اس سے عبادات بدنیہ کی ادائیگی صحیح ہے بغیر ذمہ داری کے،اور وہ مالک ہوگا ولی کی رائے سے ان معاملات کا جو نفع اور ضررکے درمیان دائر ہیں،جیسے بیع اور اس کے مانند ،اور یہ(ان تصرفات کا جواز )اس اعتبار سے ہے کہ اس کی رائے کا نقصان ولی کی رائے سے پورا ہوجائے گا،پس اس تصرف میں بچہ بالغ کی طرح ہوجائے گا امام ابوحنیفہؒ کے قول کے مطابق ،کیا نہیں دیکھتے کہ امام ابوحنیفہؒ نے اجانب کے ہاتھ غبن فاحش کے ساتھ بچہ کی بیع کو جائز قرار دیا ہے ایک روایت میں ، برخلاف صاحبین کے، اور امام ابوحنیفہؒ نے بچہ کی بیع کو رد کردیا ہے ولی کے ہاتھ غبن فاحش کے ساتھ ایک روایت میں مقامِ تہمت میں نیابت کے شبہ کا اعتبار کرتے ہوئے۔
------------------------------
تشریح :-اہلیت ِ اداکی دوقسمیں ہیں(۱)اہلیت ِ قاصرہ (۲)اہلیتِ کاملہ ،جب انسان کو فہم خطاب کی قدرت یعنی کمالِ عقل اور اس خطاب پر عمل کی قدرت یعنی کمالِ بدن حاصل ہوجائے تو ان دوقدرتوں سے ادا کی اہلیتِ کاملہ ثابت ہوجائے گی ،ان دو قدرتوں کو اعتدال سے تعبیر کیاجاتا ہے ،اور اگر یہ دوقدرتیں کامل نہ ہوں یاان میں سے سے کوئی ایک کامل نہ ہوتو پھر اہلیتِ قاصرہ ہوگی،لہٰذا بلوغ سے پہلے بدن کی قدرت قاصرہ ہوتو یہ اہلیتِ قاصرہ کی پہلی صورت ہے،کیونکہ قبل البلوغ عقل بھی ناقص ہوتی ہے اور بدن بھی ضعیف ہوتا ہے یعنی فہم اور عمل دونوں قدرتیں