کے تابع ہوکر ،اور یہ دوسری قسم ثابت کرتی ہے اصل کے استعارہ کو فرع کے لئے اور سبب کے استعارہ کو حکم کے لئے ،نہ کہ اس کے برعکس ،اس لئے کہ فرع کا اتصال اصل کے ساتھ اصل مراد لینے کے حق میں معدوم کے حکم میں ہے اصل کے مستغنی ہونے کی وجہ سے فرع سے۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ اتصال سببی کی دوسری قسم بیان کررہے ہیں ،جس میں سبب ومسبب کے درمیان اتصال ہوتا ہے،سبب کے ساتھ محض کی قید لگا کر علت کو خارج کردیا، کیونکہ کبھی سبب سے علت مراد ہوتی ہے،تو محض کہہ کر علت کو خارج کردیا پھر صاف لفظوں میں بھی علت کی نفی کردی ،چنانچہ کہا لیس بعلۃ وضعت لہ - کہ وہ ایسی علت نہ ہوجو حکم کے لئے وضع کی گئی ہو،بلکہ یہاں سبب محض مراد ہے۔
بہر حال دوسری قسم فرع (جس کو حکم اورمسبب بھی کہتے ہیں)کا اتصال سبب محض (جس کو اصل بھی کہتے ہیں) کے ساتھ ہو،سبب اور علت میں فرق ہے ،علت حکم کے لئے وضع ہوتی ہے اور حکم علت کی طرف وجود ً ا اور وجوباً منسوب ہوتا ہے،اور سبب صرف مفضی الی الحکم ہوتا ہے، اب سبب ومسبب کے درمیان اتصال کو مثال سے سمجھو ،کسی نے اپنی باندی سے کہا انت حرۃ یا اعتقتک ،تو ان الفاظ عتق سے ،پہلے اس باندی کا ملک ِرقبہ زائل ہوگا اور ملک ِ رقبہ کے واسطہ سے ملک متعہ زائل ہوگا - تو عتق کا لفظ سبب ہے ،ملک متعہ کے زوال کے لئے اور ملک متعہ کا زوال مسبب ہے ، کیونکہ عتق کا لفظ ملک متعہ کے زوال کی طرف مفضی ہے ،ملک متعہ کے زوال کے لئے یہ لفظ وضع نہیں ہوا ہے ،وضع تو ہوا ہے ملک رقبہ کے زوال کے لئے ،لہٰذا عتق ملک رقبہ کے زوال کے لئے تو علت بنے گا ، البتہ عتق کے لفظ نے ملک رقبہ کے زوال کے واسطہ سے ملک متعہ کے زوال تک پہنچا دیا، اس لئے عتق کو ملک متعہ کے زوال کے لئے سبب کہیں گے ،اور چونکہ سبب ہے علت نہیں، اس لئے ضروری نہیں ہے کہ عتق ملک متعہ کے زوال تک ہمیشہ پہنچائے ،کبھی پہنچائے گا کبھی نہیں جیسے اپنی باندی سے کہا تو عتق ملک ِمتعہ کے زوال تک پہنچائے گا اور غلام سے کہا تو نہیں پہنچائے گا ،البتہ عتق کا لفظ ملک ِرقبہ کے زوال تک یقینی طور پر پہنچائے گا، تو معلوم ہوا کہ عتق ملک ِرقبہ کے لئے تو علت ہے لیکن ملک ِمتعہ کے زوال کے لئے سبب ہے -- اور ملک متعہ کا زوال طلاق سے ہوتا ہے تو گویا انت حر ۃ سبب ہوا اور انت طالق مسبب ہوا، لہٰذا اگر کوئی اپنی بیوی کو اَنْتِ حُرَّۃٌ کہے اور اَنْتِ طَالِقٌ مراد لے تو صحیح ہے کیونکہ سبب بولکر مسبب مراد لے رہا ہے ،لہٰذا بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی ،لیکن اگر کسی نے اپنی باندی کو اَنْتِ طَالِقٌ کہا اور اَنْتِ حُرَّۃٌ مراد لیا یعنی مسبب بولکر سبب مراد لیا تو صحیح نہیں ہے کیونکہ سبب ومسبب کے درمیان اتصال والی قسم میں استعارہ صرف ایک طرف سے درست ہے یعنی سبب بولکر مسبب مراد لینا تو صحیح ہے کیونکہ مسبب اپنے ثبوت میں سبب کا محتاج ہے تو مسبب کی طرف سے سبب کے ساتھ اتصال ہے،لیکن مسبب بولکر سبب مراد لینا صحیح نہیں ہے،کیونکہ