نے آدھا خریدا پھر اس کو بیچ دیا پھر دوسرا آدھا خریدا __ تو یہ دوسرا آدھا آزاد ہوجائے گا اور اگر ان ملکت عبداً فھو حر __ کہاپھر آدھا خرید کر بیچ دیا ،پھر دوسرا آدھا خریدا تو یہ دوسرا آدھا آزاد نہ ہوگا __ دونوں میں فرق یہ ہے کہ شرا میں پورا غلام اکٹھا ہونا ضروری نہیں ہے ،آدھا آدھا کرکے خریدا تو بھی عرف میں اس کو غلام کا مشتری کہا جائے گا ،اور ملک کے لئے ضروری ہے کہ پورا غلام اکٹھا اس کی ملک میں ہو ،لہٰذا پہلا آدھا خرید کر بیچ دیا پھر دوسرا آدھا خریدا تو پورا غلام اکٹھا اس کی ملک میں نہیں آیا، کیونکہ پہلا آدھا تو اس کی ملک سے نکل گیا،لہٰذا عرف میں اس کو غلام کا مالک نہیں کہا جائے گا ،- یہ فرق ہے شراء اوراس ملک کا۔
اس تمہید کے بعد اب مسئلہ سمجھئے ،اگر کسی نے کہا ان اشتریت عبداً فھو حر اور ملک مراد لے رہا ہے،یا ان ملکت عبداً فھو حر کہہ کر شراء مراد لے رہا ہے ،تو استعارہ دونوں طرف سے صحیح ہے ،کیونکہ ملک اور شراء میں اتصال علت ومعلول کا ہے ،لہٰذا دیانۃً اس کی بات مانی جائے گی تو پہلی صورت میں یعنی شراء بولکر ملک مراد لے تو دوسرا آدھا غلام آزاد ہوجائے گا۔
لیکن جس صورت میں متکلم کا فائدہ ہورہا ہے اور اس پر تخفیف ہورہی ہے اس میں قضاء ً اس کی بات نہیں مانی جائے گی یعنی قاضی اس کی بات تسلیم نہیں کرے گا ،لہٰذا ملک بولکر شراء مراد لے رہا ہے تو دیانہ ًوقضاء ً اس کی بات معتبر ہے اور اگر شراء بولکر ملک مراد لے رہا ہے تو چونکہ اس میں متکلم کا فائدہ ہے لہٰذا دیانۃً تو اس کی بات قبول ہوگی ،مگر قضاء ً معتبر نہ ہوگی ،اس وجہ سے نہیں کہ استعارہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کے متہم با لکذب ہونے کی وجہ سے۔
تنبیہ:ملک وشراء کے درمیان مذکور فرق اس وقت ہے جب اس نے عبداً نکرہ استعمال کیا ہو ،اگر نکرہ نہ لائے بلکہ مفعول کو معین کرکے کہے اِنِ اشْتَرَیْتُ ھٰذَا الْعَبْدَ،یَا اِنْ مَلَکْتُ ھٰذَا الْعَبْدَ تو دونوں صورتوں میں دوسرا آدھا غلام آزاد ہوجائے گا۔
وَالثَّانِیْ اِِتِّصالُ الْفَرْعِ بِمَا ھُوَ سَبَبٌ مَحْضٌ لَیْسَ بِعِلَّۃٍ وُضِعَتْ لَہٗ کَاِتِّصَالِ زَوَالِ مِلْکِ الْمُتْعَۃِ بِاَلْفَاظِ الْعِتْقِ تَبْعًا لِزَوَالِ مِلْکِ الرَّقْبَۃِ وَاِنَّہٗ یُوْجِبُ اِسْتِعَارَۃَ الْاَصْلِ لِلْفَرْعِ وَالسَّبَبَ لِلْحُکْمِ دُوْنَ عَکْسِہٖ لِاَنَّ اِتِّصَالَ الْفَرْعِ بِالْاَصْلِ فِیْ حَقِّ الْاَصْلِ فِیْ حُکْمِ الْعَدَمِ لِاسْتِغْنَائِہٖ عَنِ الْفَرْعِ
ترجمہ :-اتصال سببی کی دوسری قسم فرع (حکم،مسبب)کا اتصال ہے اس چیز کے ساتھ جو سبب محض ہے ایسی علت نہیں ہے جو فرع کے لئے وضع کی گئی ہو ،جیسے ملک ِ متعہ کے زوال کا اتصال عتق کے الفاظ سے ملک رقبہ کے زوال