کنواں کھودنے والا مباشرِ قتل نہیں ہے۔
وَاَمَّا اِذَاکَانَتِ الْعِلَّۃُ صَالِحَۃً لَمْ یَکُنِ الشَّرْطُ فِیْ حُکْمِ الْعِلَّۃِ وَلِھٰذَا قُلْنَا اِنَّ شَھُوْدَ الشَّرْطِ وَالْیَمِیْنِ اِذَا رَجَعُوْا جَمِیْعًا بَعْدَ الْحُکْمِ اِنَّ الضَّمَانَ عَلٰی شُھُوْدِ الْیَمِیْنِ لِاَنَّھُمْ شُھُوْدُ الْعِلَّۃِ وَکَذٰلِکَ الْعِلَّۃُ وَالسَّبَبُ اِذَا اِجْتَمَعَا سَقَطَ حُکْمُ السَّبَبِ کَشُھُوْدِ التَّخْیِیْرِ وَالْاِخْتِیَارِ اِذَا اِجْتَمَعُوْا فِی الطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ ثُمَّ رَجَعُوْا بَعْدَ الْحُکْمِ اِنَّ الضَّمَانَ عَلٰی شُھُوْدِ الْاِخْتِیَارِ لِاَنَّہٗ ھُوَ الْعِلَّۃُ وَالتَّخْیِیْرُ سَبَبٌ وَعَلٰی ھٰذَا قُلْنَا اِذَا اِخْتَلَفَ الْوَلِیُّ وَالْحَافِرُ فَقَالَ الْحَافِرُ اِنَّہٗ اَسْقَطَ نَفْسَہٗ کَانَ الْقَوْلُ قَوْلَہٗ اِسْتِحْسَانًا لِاَنَّہٗ یَتَمَسَّکُ بِمَا ھُوَ الْاَصْلُ وَھُوَ صَلَاحِیَۃُ الْعِلَّۃِ لِلْحُکْمِ وَیُنْکِرُ خِلَافَۃَ الشَّرْطِ بِخِلَافِ مَا اِذَا ادَّعٰی الْجَارِحُ الْمَوْتَ بِسَبَبٍ اٰخَرَ لَایُصَدَّقُ لِاَنَّہٗ صَاحِبُ عِلَّۃٍ۔
ترجمہ:-اور بہر حال جب علت صالح للحکم ہوتو شرط علت کے حکم میں نہ ہوگی، اور اسی وجہ سے ہم نے کہا کہ جب شرط اور یمین کے گواہوں نے رجوع کرلیا قاضی کے فیصلہ کے بعد ،تو ضمان یمین کے گواہوں پر ہوگا، (یعنی نصف مہر کا ضمان) اس لئے کہ یہی علت کے گواہ ہیں، اور اسی طرح علت اور سبب جب دونوں جمع ہوجائیں تو سبب کا حکم ساقط ہوجائے گا، جیسے تخییر اور اختیار کے گواہ جب طلاق اور عتاق میں جمع ہوجائیں، پھر حکم کے بعد رجوع کرلیں ،تو ضمان اختیار کے گواہوں پر ہوگا، اس لئے کہ اختیار علت ہے اور تخییر سبب ہے، اور اسی بنیاد پر ہم نے کہا کہ جب ولی اور حافر نے اختلاف کیا، پس حافر نے کہا کہ اس نے اپنے آپ کو خود گرایا ہے، تو حافر کا قول معتبر ہوگا استحسانًا ، اس لئے کہ حافر اس چیز سے استدلال کررہا ہے جو اصل ہے، اور اصل علت کا حکم کی صلاحیت رکھنا ہے، اور شرط کے خلیفہ ہونے کا انکار کررہا ہے، برخلاف اس کے کہ جب جارح کسی دوسرے سبب سے موت کا دعوی کرے ،تو جارح کی تصدیق نہیں کی جائے گی، اس لئے کہ جارح صاحب علت ہے۔
------------------------------
تشریح :-جب شرط اور علت جمع ہوںاور علت حکم کی صلاحیت رکھتی ہے تو شرط علت کے حکم میں نہ ہوگی ،بلکہ حکم علت کی طرف ہی منسوب ہوگا، جیسے قاضی کے سامنے گواہوں نے گواہی دی کہ خالد نے اپنی بیوی کو اس طرح طلاق دی ہے ’’ان دخلت الدار فانت طالق‘‘ تو یہ شہودِ یمین ہوئے،کیونکہ تعلیق یمین بغیر اللہ ہے،پھر دوگواہوں نے شرط کے پائے جانے کی گواہی دی کہ خالد کی بیوی گھر میں داخل ہوئی ،تو یہ شہود شرط کہلائیں گے ،اب قاضی نے طلاق