بندے کا حق غالب ہے،اس لئے قصاص میں وارثت بھی جاری ہوگی،اس کے بدلہ میںدیت لینا بھی صحیح ہے،اور قصاص کو صاحبِ حق معاف بھی کرسکتا ہے۔
وَحُقُوْقٌ اللہِ تَعَالٰی ثَمَانِیَۃُ اَنْوَاعٍ عِبَادَاتٌ خَالِصَۃٌ کَالْاِیْمَانِ وَالصَّلٰوۃِ وَالزَّکوٰۃُ وَنَحْوِھَا وَعُقُوْبَاتٌ کَا مِلَۃٌ کَالْحُدُوْدِ وَعُقُوْبَاتٌ قَاصِرَۃٌ وَنُسَمِّیْھَا اَجْزِیَۃًَ وَذٰلِکَ مِثْلُ حِرْمَانِ الْمِیْرَاثِ بِالْقَتْلِ وَحَقُوْقٌ دَائِرَۃٌ بَیْنَ الْاَمْرَیْنِ وَھِیَ الْکَفَّارَاتُ وَعِبَادَۃٌ فِیْھَا مَعْنَی الْمَؤُنَۃِ حَتّٰی لَا یَشْتَرِِطَ لَھَا کَمَالُ الْاَھْلِیَۃِ فَھِیَ صَدَقَۃُ الْفِطْرِ وَمَؤُنَۃٌ فِیْھَا مَعْنَی الْقُرْبَۃِ وَھُوَ الْعُشْرُوَلِھٰذَالَا یَبْتَدِیُٔ عَلَی الْکَافِرِ وَجَازَالْبَقَاءُ عَلَیْہِ عِنْدَ مُحَمَدٍ ؒ وَمَؤُنَۃٌ فِیْھَا مَعْنَی الْعُقْوُبۃ وَھُوَ الْخِرَاجُ وَلِذٰلِکَ لَایَبْتَدِیُٔ عَلَی الْمُسْلِمِ وَجَازَالْبَقَاءُ عَلَیْہٖ وَحَقٌ قَائِمٌ بِنَفْسِہٖ وَھُوَ خُمْسُ الْغَنَائمِ وَالْمَعَادِنِ فِاِنَّہٗ حَقٌّ وَجَبَ لِلّٰہِ تَعَالٰے ثَابِتًا بِنَفْسِہٖ بِنَاءً عَلٰے اَنَّ الْجِھَادَ حَقُّہٗ فَصَارَ الْمُصَابُ بِہٖ لَہٗ کُلُّہٗ لٰکِنَّہٗ اَوْجَبَ اَرْبَعَۃَ اَخْمَاسِہٖ لِلْغَانِمِیْنَ مِنَّۃً مِنْہُ فَلَمْ یَکُنْ حَقًا لَزِمَنَا اَدَاءُ ہٗ طَاعَۃً لَہٗ بَلْ ھُوَحَقٌّ اِسْتَبْقَاہُ لِنَفْسِہٖ فَتَوَلَّی السُّلْطَانُ اَخْذَہٗ وَقِسْمَتَہٗ وَلِھٰذَا جَوَّزْنَا صَرْفَہْ اِلٰی مَنْ اِسْتَحَقَّ اَرْبَعَۃً الْاَخْمَاسِ مَنِ الْغَانِمِیْنَ بِخِلِافِ الزَّکٰوۃِ وَالصَّدَقَاتِ وَحَلَّ لِبَنِی ھَاشِمٍ لِاَ نَّہٗ عَلٰے ھٰذَا التَّحْقِیْقِ لَمْ یَصِرْ مِنَ الْاَوْسَاخِ وَاَمَّا حُقُوْقُ الْعِبَادِ فَاِنَّھَا اَکْثَرُ مِنْ اَنْ تُحُصْیٰ۔
ترجمہ:-اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی آٹھ قسمیں ہیں،خالص عبادات جیسے ایمان ،نمازاور زکوۃ اور اس کے مثل،اور کامل عقوبات جیسے حدود، اور عقوباتِ قاصرہ اور ہم ان کا نام اَجْزِ یَہْ رکھتے ہیں،اور یہ جیسے قتل کی وجہ سے میراث سے محروم ہونا، اور ایسے حقوق جو دائر ہوں دوامروں کے درمیان اور وہ کفارات ہیں،اور ایسی عبادت جس میںمؤنت کے معنی ہوں، یہاںتک کہ اس کے لئے کامل اہلیت شرط نہیں ہے،پس یہ صدقہ ٔ فطرہے،اور ایسی مؤنت جس میں عبادت کے معنی ہیں اور وہ عُشْر ہے،اور اسی وجہ سے ابتداء عشرکافر پر نہیں ہوگا،اور امام محمدؒ کے نزدیک کافر پر بقا ء ً جائز ہے،اور ایسی مؤنت جس میں عقوبت کے معنی ہیں اور وہ خراج ہے،اور اسی وجہ سے خراج ابتداء ً مسلمان پر نہیں ہوگا، اور مسلمان پر خراج کی بقاء جائز ہے،اور ایسا حق جو بالذات قائم ہے اور وہ معاون اور غنائم کا خُمْس ہے ،تو یہ ایسا حق