ہے دو مثلین میں سے ایک کودوسرے پر وصف کے اعتبار سے فضیلت دینے کا ،یہا نتک کہ اہلِ اصول نے کہا ہے کہ ایک قیاس دوسرے قیاس کی وجہ سے راحج نہ ہوگا ،اور اسی طرح کتاب اور سنت ،اور بعض راحج ہوگا بعض پر ایسی قوت کی وجہ سے جو اس میں ہے، اور اسی طرح متعددزخم والا راحج نہ ہوگا ایک رخم والے پر ، اور وہ چیز جس کی وجہ سے ترجیح واقع ہوتی ہے چار ہیں،(۱) قوتِ اثر کی وجہ سے ترجیح دینا، اس لئے کہ اثر ایک وصف ہے حجت میں، پس جب اثر قوی ہوگا تو قیاس اولی ہوگا، وصف ِ حجت میں زیادتی کی وجہ سے جیسے استحسان کی مثال ہے قیاس کے معارضہ میں (۲)اور ترجیح ہوتی ہے وصف کی قوتِ ثبات سے اس حکم پر جس پر اس کو شاہد بنایا گیا ہے، جیسے ہمارا قول سرکے مسح میں کہ یہ مسح ہے ،اس لئے کہ یہ زیادہ اَثْبَتْ (ثابت کرنے والا) ہے تخفیف کی دلالت میں شوافع کے اس قول سے کہ مسح رکن ہے تکرار کی دلالت میں، اس لئے کہ ارکانِ صلوۃ ، ان کی تمامیت اکمال سے ہوتی ہے نہ کہ تکرار سے، پس بہرحال مسح کا اثر تخفیف میں پس لازم ہے ہر غیر معقول طہارت میں، جیسے تیمم اور اس کے مانند۔
------------------------------
تشریح :-مصنفؒ ترجیح کا بیان شروع کررہے ہیں ، کبھی ادلہ میں تعارض ہوجاتا ہے تو ترجیح کی ضرورت پیش آتی ہے ، تاکہ تعارض ختم ہوجائے ، لیکن مستدل کوئی وجہِ ترجیح پیش کردے تو معارض کواختیار رہتا ہے کہ وہ دوسری کوئی وجہِ ترجیح پیش کرکے اس کا معارضہ کرے ، ترجیح کے ذریعہ قیاسی دلائل میں معارضہ کو دفع کیا جاتا ہے ،بہرحال ترجیح کہتے ہیں دوبرابر دلیلوں میں سے ایک کو دوسرے پر کسی خاص وصف کی وجہ سے فضیلت دینا __وصف کہا جس سے معلوم ہوا کہ جس چیز سے ترجیح دیجائے وہ خود مستقل دلیل نہ ہو، بلکہ بحیثیت ِوصف کسی مستقل دلیل کے تابع ہوکر پایاجائے-- لہٰذاعادل کی شہادت کو فاسق کی شہادت پر وصف ِعدالت کی وجہ سے ترجیح دینگے، اور چار آدمیوں کی شہادت دوآدمیوں کی شہادت پر کثرتِ دلیل کی وجہ سے قابل ترجیح نہیں ہے، کیونکہ چار آدمیوں کی شہادت میں مزید دوآدمیوں کی شہادت مستقل دلیل ہے، کوئی وصف نہیں ہے۔
اسی لئے اصولیین کہتے ہیں کہ قیاس کو دوسرے قیاس پر کسی تیسرے قیاس کی وجہ سے ترجیح نہ ہوگی، کیونکہ یہ وصف نہیں ہے ،مستقل دلیل ہے ،اسی طرح کتاب وسنت کاحکم ہے یعنی ایک آیت کو دوسری آیت پر کسی تیسری آیت کی وجہ سے ترجیح نہ ہوگی، اور ایک حدیث کو دوسری حدیث پر کسی تیسری حدیث کی وجہ سے ترجیح نہ ہوگی، کیونکہ ترجیح کا مدار وصف ِزائد پر ہے نہ کہ کثرتِ دلیل پر__ ہاں کتاب وسنت اور قیاس میں سے ہر ایک کو اس کے معارض پر اس قوت کے سبب سے ترجیح دے سکتے ہیں جوخود اس دلیل میں موجود ہے، لہٰذا مفسرآیت کو مجمل پر، خبرِ مشہور کو خبرِ واحد پر ترجیح ہوگی کیونکہ یہ ترجیح وصف ِ قوت کی وجہ سے ہے، __ اسی طرح کئی زخم والے کو ایک زخم والے پر ترجیح نہ ہوگی مثلاً خالد نے راشد کو ایک زخم لگایا، اور راشد نے خالد کو متعدد زخم لگائے ،جس کے نتیجہ میں خالدمرگیا، تو دیت دونوں پر