(اعتاق )میں اس چیز کو بالکل باطل کررہا ہے جو فسخ اور رد کا احتمال نہیں رکھتی ہے
------------------------------
تشریح :-مصنفؒ ایک ضابطہ بیان کررہے ہیں کہ جوکلام اپنی اصل اور وضع کے اعتبار سے صحیح ہو اور اس کو اگر معارض مفارقہ کے طور پر یعنی معارضہ فی علتِ الاصل کے طور پر پیش کرتا ہے ،تو یہ کلام باطل ہوجائے گا ،کیونکہ ماقبل میں آپ پڑھ چکے کہ معارضہ فی علتِ الاصل (اسی کا نام مفارقہ ہے،مفارقہ اس کو اس لئے کہتے ہیں کہ معارض ایسی علت پیش کرتا ہے جس سے مُعَلِّلْ کی اصل وفرع میں فرق ہوجاتا ہے) باطل ہے،تو آپ کا صحیح کلام بھی یہ کہہ کررد کردیا جائے گا کہ یہ معارضہ فی علت الاصل ہے جو باطل ہے،حالانکہ آپ کا معارضہ اصلِ وضع میں صحیح ہے، لہٰذامصنفؒ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اپنا کلام معارضہ فی علت الاصل کے طرز پر نہ پیش کریں بلکہ تھوڑا رخ بدل کر ممانعت کے طرز میں پیش کریں ،تو مُعَلِّل اس کو رد نہیں کرسکے گا۔
اس کی مثال جیسے اگر راہن نے مرہون غلا م کو بیچا تو بیع بالاتفاق نافذ نہیں ہوتی ،بلکہ مرتہن کی اجازت پر موقوف رہتی ہے ،اگر مرتہن اجازت دے تو نافذ ہوتی ہے ورنہ نہیں ،اوراگر راہن نے مرہون غلام کو آزاد کیا تو ہمارے نزدیک آزاد ہوجائے گا ،امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اگر راہن مالدار ہے تو عتق نافذ ہوجائے گا ،اور اگر غریب ہے تو نافذ نہ ہوگا، اگر چہ مرتہن اجازت دے دے تب بھی عتق نافذ نہ ہوگا،شوافع کی دلیل یہ ہے کہ راہن کا عبدِ مرہون کو آزاد کرنا ایسا تصرف ہے جس سے مرتہن کا حق باطل ہوجاتا ہے ،لہٰذا راہن کا اعتاق باطل ہو جائے گا جیسے راہن کی بیع باطل ہوتی ہے__ امام شافعیؒ نے عتق کو بیع پر قیاس کیا ،بیع کو اصل اور عتق کو فرع قرار دیا، اور دونوں میں وصفِ مشترک ابطالِ حقِ غیرہے،جیسے مرتہن کا حق باطل ہونے کی وجہ سے بیع باطل ہے ،اسی طرح مرتہن کا حق باطل ہونے کی وجہ سے راہن کا عتق بھی نافذ نہ ہوگا ۔
ہمارے اصحاب میں سے جو مفارقۃاورمعارضہ فی علت الاصل کے جواز کے قائل ہیں، انہوں نے معارضہ کے طریقے پر شوافع کا جواب دیا کہ اعتاق بیع کے مانند نہیں ہے ،بلکہ دونوں میں فرق ہے،کیونکہ بیع فسخ ہونے کا احتما ل رکھتی ہے اور عتق میں فسخ ہونے کا احتمال نہیں ہے ،جب دونوں میں فرق ہے ،تو عتق کو بیع پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ، معارض نے فرق بیان کرکے اصل یعنی مقیس علیہ (بیع ) کی علت میں معارضہ کیا، کہ بیع کے عدمِ جواز کی علت وہ نہیں ہے جو آپ نے بیان کی،بلکہ اس کی علت احتمالِ فسخ ہے یعنی بیع کے واقع ہونے کے بعد فسخ کا احتمال رکھنا ،اور یہ علت فرع یعنی مقیس(عتق)میں نہیں ہے،لہٰذا قیاس صحیح نہیں،__معارض یعنی بعض احناف کا اصل وفرع میں فرق کرکے معلل پر معارضہ اگر چہ فی نفسہ صحیح ہے،مگر چونکہ معارضہ کی صورت میں ہے ،اس لئے ردہوجائے گا ،لہٰذا آپ رخ بدل دیں اور اسی بات کو بجائے معارضہ کے ممانعت کے انداز میں پیش کریں اور یوں کہیں کہ حضرت والا !آپ کا