نہیں ہوا ہے ۔
اور اگر معارض علتِ متعدیہ سے معارضہ کررہا ہے تو بھی باطل ہے، اس کی مثال جیسے احناف کے نزدیک چونے کی بیع چونے سے کمی بیشی سے رِبوٰ ہے ،اس کو قیاس کرتے ہیں گیہوں اور جو پر اور علت قدر وجنس ہے__ اس پر امام شافعیؒ کی طرف سے معارضہ ہوا کہ آپ نے مقیس علیہ یعنی گیہوںاور جو میں جو علت نکالی ہے قدر وجنس، وہ علت ہے ہی نہیں، بلکہ علت اقتیات واد خار ہے ،اور یہ علت فرع میں نہیں ہے، لہٰذا چونے کی چونے سے بیع تقاضلاً جائز ہے۔
علتِ متعدیہ ہونے کی صورت میں معارضہ باطل اور فاسد ہے،کیونکہ معارضہ کی اس قسم کا موضعِ نزاع یعنی فرع کے حکم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ،بس اس حیثیت سے فرع سے اس کا تعلق ہے کہ یہ علت فرع میں نہیں ہے، اور علت کا معدوم ہونا حکم کے معدوم ہونے کو ثابت نہیں کرتاہے ،اس لئے کہ ایک حکم کی بہت ساری علتیںہوسکتی ہیں،لہٰذا فرع میں معارض کی پیش کردہ علت نہ ہونے سے حکم کا معدوم ہونا لازم نہ آئے گا ،بلکہ حکم دوسری علت سے ثابت ہوجائے گا ، بہرحال علت ِمتعدیہ میں بھی زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ فرع میں معارض کی بیان کردہ علت نہ ہوگی اور علت کے عدم سے حکم کا عدم نہ ہوگا،کیونکہ ایک حکم کی بہت ساری علتیں ہوسکتی ہیں ،لہٰذا جب فرع کا حکم معدوم نہ ہوا تو معارضہ صحیح نہ ہوابلکہ فاسد ہوگیا ۔
وَکُلُّ کَلَامٍ صَحِیْحٌ فِی الْاَصْلِ یُذْکَرُ عَلٰی سَبِیْلِ الْمُفَارَقَۃِ فَاذْکُرْہٗ عَلٰی سَبِیْلِ الْمُمَانَعَۃِ کَقَوْلِھِمْ فِی إعنَاقِ الرَّاھِنِ اَنَّہٗ تَصَرُّفٌ یُلَا قِیْ حَقَّ الْمُرْتَھِنِ بِالْاِبْطَالِ فَکَانَ مَرْدُوْدًا کَا لْبَیْعِ فَقَالُوْا لَیْسَ ھٰذَا کَا لْبَیْعِ لِاَنَّہٗ یَحْتَمِلُ الْفَسْخَ بِخِلَافِ الْعِتْقِ وَالْوَجْہُ فِیْہٖ اَنْ نَقُوْلَ الْقِیَاسُ لِتَعْدِیَۃِ حُکْمِ الْاَصْلِ دُوْ نَ تَغْیِیْرِہٖ وَحُکْمُ الْاَصْلِ وَقْفُ مَایَحْتَمِلُ الرَّدَّ وَالْفَسْخَ وَاَنْتَ فِیْ الْفَرْعِ تُبْطِلُ اَصْلًامَا لَا یَحْتَمِلُ الْفَسْخَ وَالرَّدَّ۔
ترجمہ :-اور ہر وہ کلام جو اپنی اصل ِوضع میں صحیح ہو،جس کو مفارقت کے طریقہ پر ذکر کیا جاتا ہے ،تو اس کو ممانعت کے طریقہ پر ذکر کر ،جیسے شوافع کا قول اعتاقِ راہن کے سلسلے میں کہ راہن کا اعتاق ایسا تصرف ہے جو ملاقی ہے حق ِمرتہن سے ابطال کے ساتھ تو اعتاق بیع کی طرح مردود ہوگا ،انہوں نے کہا کہ اعتاق بیع کی طرح نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فسخ کا احتمال رکھتی ہے برخلاف عتق کے ،اور وجہ اس میں یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ قیاس اصل کے حکم کو متعدی کرنے کے لئے ہے نہ کہ اس کو متغیر کرنے کے لئے ،اور اصل کا حکم ایسا توقف ہے جو رداور فسخ کا احتمال رکھتا ہے،اور تو فرع