مگر مصنفؒ کہتے ہیں کہ قلب کا یہ طریقہ فاسد ہے،دووجہ سے (۱)ایک تو یہ کہ مُعَلِّل کچھ اور کہہ رہا ہے ،اور آپ کچھ اور کہہ رہے ہیں،مُعَلِّلْ کا دعوی عدم ِلزوم بالشروع کا ہے اور آپ مساوات ثابت کررہے ہیں،جس کا وہ مُنْکِر نہیں ہے،آپ اس کے دعوی کی نقیض لاتے یعنی اثباتِ لزوم تو مناقضہ ہوتا مگر آپ دوسرا حکم لے آئے یعنی مساوات تو قلب نہ ہوا ،کیونکہ قلب میں ضروری ہے کہ معارضہ کے ساتھ مناقضہ بھی ہو، (۲) دوسری وجہِ فساد یہ ہے کہ کلام میں مقصود معانی ہوتے ہیں،نہ کہ الفاظ،اب معارض نے جو استواء ثابت کیا ہے وہ معنی کے لحاظ سے مختلف ہے،اس طر یقہ پر کہ یہ استواء مقیس علیہ یعنی وضو میں تو سقوط اور عدم لزوم کے اعتبار سے ہے ،کہ وضو نہ نذر سے لازم ہوتا ہے نہ شروع کرنے سے اور یہی استواء فرع (مقیس )یعنی نفلی عبادت میں ثبوت اور لزوم کے اعتبار سے ہے کہ نفلی عبادت نذر سے بھی لازم ہوجاتی ہے اور شروع کرنے سے بھی،تو اگر چہ اصل اور فرع لفظ استواء میں شریک ہیں،لیکن معنی ومقصود میں مختلف ہیں ،کیونکہ اصل میں استواء سقوط کے اعتبار سے ہے اور فرع میں ثبوت کے اعتبار سے ہے ،تو اصل اور فرع میں تضاد ہو ا،تو یہ تضاد احناف کے قیاس بالقلب کو باطل کردے گا ،اس لئے قلب کے اس طریقہ کو فاسد کہا گیا ۔
وَاَمَّا الْمُعَارَضَۃُ الْخَالِصَۃُ فَنَوْعَانِ اَحَدُھُمَا فِیْ حُکْمِ الْفَرْ عِ وَھُوَصَحِیْحٌ وَالثَّانِیْ فِیْ عِلَّۃِالْاَصْلِ وَذٰلِکَ بَاطِلٌ لِعَدَمِ حُکْمِہٖ وَلِفَسَادِہٖ لَوْاَفَادَ تَعَدِّیَتَہٗ لِاَنَّہٗ لَااِتِصَالَ لَہٗ بِمَوْضِعِ النِّزَاعِ اِلَّامِنْ حَیْثُ اَنَّہٗ یَنْعَدِمُ تِلْکَ الْعِلَّۃُ فِیْہِ وَعَدَمُ الْعِلَّۃِ لَایُوْجِبُ عَدَمَ الْحُکْمِ
ترجمہ :-اور بہرحال معارضئہ خالصہ پس اس کی دوقسمیں ہیں ،ان میں سے ایک معارضہ فی حکمِ الفرع ہے اور یہ صحیح ہے،اور دوسرا معارضہ فی علۃ الاصل ہے ،اور یہ باطل ہے تعلیل کا حکم نہ ہونے کی وجہ سے ،اور تعلیل کے فاسد ہونے کی وجہ سے، اگر تعلیل اس کے متعدی ہونے کا فائدہ دے ،اس لئے کہ یہ (معارضہ فی علۃ الاصل )اس کا کوئی اتصال نہیںہے موضع نزاع (معارضہ فی حکم الفرع )کے ساتھ مگر اس حیثیت سے کہ معارضہ فی حکم الفرع میں وہ علت معدوم ہوجائے اور علت کا معدوم ہونا حکم کے معدوم ہونے کو واجب نہیں کرتا ہے ۔
------------------------------
تشریح :-ماقبل میں بتایا گیا کہ معارضہ کی دوقسمیں ہیں،معارضہ فیھا مناقضہ ،اور معارضئہ خالصہ اول کا بیان تفصیل سے ہوچکا، اب ثانی کو بیان کررہے ہیں۔فرماتے ہیں کہ معارضئہ خالصہ یعنی وہ معارضہ جس میں مناقضہ نہ ہو،اس کی دوقسمیں ہیں، (۱)معارضہ فی حکمِ الفرع(۲)معارضہ فی علۃ الاصل ۔
(۱)معارضہ فی حکم الفرع کا مطلب یہ ہے کہ مُعَارِض فرع کے حکم میں معارضہ کرے یعنی معارض مُعَلِّل سے